محمد علی جناح کو صرف ایک سیاسی لیڈر کہنا یا انہیں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہر قانون سمجھنا، میرے خیال میں ان کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ جناح کی شخصیت اور ان کے کردار پر گہری نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ''انسٹی ٹیوشن‘‘ تھے۔ لگتا ہے جناح کے فلسفے کو سمجھنے، ان کے نظریے اور بصیرت کو پہچاننے اور ان کی جدوجہد کے پیچھے پنہا حقیقی مقاصد کا ادراک کرنے کے لیے شاید قوم کو مزید 75 سال لگیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بانی پاکستان کے وژن کو قوم کبھی سمجھ ہی نہ پائے۔
جناح کے وژن کا تجزیہ اگر تنقیدی سوچ کے ساتھ کیا جائے تو بھی ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ چند بنیادی عوامل نے ان کے خواب کو پورا نہ ہونے دیا۔ جنوبی ایشیا کے نقشے پر یہ نئی ریاست وجود میں تو آگئی تھی مگر اس کا بنیادی ڈھانچہ آج بھی لرزتی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہے۔داخلی اور بیرونی سیاسی ہوا زرا زور سے چلے تو اس کے ستون ہلنے لگتے ہیں۔
قائد نے پاکستان کو احتساب، دیانتداری، رواداری، جمہوریت اور سیاسی تکثیریت کا گہوارہ بنانا چاہا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہو۔ جناح نے اس ریاست کو اپنے انہی بنیادی اصولوں کے تحت پروان چڑھتے دیکھنے کی خواہش کی تھی۔ وقت نے ان کے ساتھ وفا نہ کی اور وہ اپنی انتھک محنت کا ثمر دیکھے بغیر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ قائد کا اتنے جلدی اپنے قوم سے بچھڑ جانا پاکستان اور پاکستانی قوم کا سب سے بڑا نقصان تھا۔ پاکستان کو دوسرا بڑا دھچکا 1951ء میں اُس وقت پہنچا جب قائد اعظم کے دست راست اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا قتل ہوا۔
لیاقت علی خان کا قتل جن حالات اور انداز میں ہوا اُس پر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ واقعہ شاید ایک انتباہی پیغام لیے ہوئے تھا۔ لیاقت علی خان کے قتل سے کچھ ایسے سوالات نے جنم لیا جن کا کوئی ٹھوس جواب آج تک نہیں ملا۔ ایک دلچسپ بات یہ کہ اس قتل کی تحقیقات کے ذمہ دار اداروں اور افراد نے باقاعدہ ایک کمیشن کی زیر نگرانی تفتیشی کارروائی کی، ایک رپورٹ بھی شائع ہوئی جسے خان فیملی اور اکثریتی عوام نے رد کر دیا تھا۔ پھر اس قتل کی تحقیقات اور تفتیش کے عمل میں بیرونی عناصر اور اندرون ملک اداروں کے کردار پر نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان آج بھی وہیں کھڑا ہے۔
بھارت میں کوئی الیکشن جناح کے بغیرمکمل کیوں نہیں ہوتا ہے؟
پچھتر سالوں بعد بھی ملک کی داخلی سیاست اور خارجہ پالیسی بہت مفلوج و محتاج ہے۔ گزشتہ چند سالوں اور مہینوں میں پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات جن میں معروف صحافیوں سے لے کر دیگر اہم شخصیات کے قتل کے بعد عدلیہ اور قانونی ادارے اپنا کردار جس انداز میں ادا کر رہے ہیں وہ پاکستان میں برسوں پہلے کی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ پاکستان کی عدلیہ، خفیہ ایجنسیاں، مقننہ، سیاسی اشرافیہ، جاگیر دارانہ اور وڈیرہ شاہی نظام، سیاستدانوں کا کردار۔ سول اور فوجی بیوروکریٹس کا گٹھ جوڑ۔
پاکستان میں ملکی آئین کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پہلا آئین ملک کے قیام کے نو سال بعد بنا اور اپنے نفاذ کے دو سال بعد ہی منسوخ کر دیا گیا اور پھر فوجی آمریت کے ہاتھوں ملک کے ساتھ جو کھلواڑ ہوتا رہا اُس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
بدعنوانی اور اقربا پروری کا عروج، غیر منصفانہ قوانین، احتساب اور معیاری حکمرانی کا فقدان، مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی۔ یہ ہیں وہ چند بنیادی مسائل جو اب ملک کو پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔مزارِ جناح پر نعرے بازی، کیپٹن صفدر گرفتار
کیا یہ تھا محمد علی جناح کا خواب؟ وہ لیڈر جو سیاسی تکثیریت، روشن خیالی، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی وکالت کرتے ہوئے اس دنیا سے گیا، وہ تو سادگی اور خود انحصاری کی بات کرتا تھا۔ جناح اقلیتوں کے لیے مذہبی رواداری اور مساوات چاہتے تھے، تاہم ان کے جانشینوں نے ان کی ہر خواہش کو رد کر دیا۔ اگر جناح زندہ ہوتے تو ریاستی پالیسیوں کی تشکیل میں مذہبی رہنماؤں اور فوج کے کردار پر سخت گرفت رکھتے۔
قیام پاکستان میں فاطمہ جناح کا کردار کیا تھا؟
پاکستان 75 سالوں میں مسلسل تنزلی کی طرف گامزن رہا، ملکی اور غیرملکی ہر طرح کی سازشوں کے لیے پاک سر زمین نہایت زرخیز بن چُکی ہے۔ کوئی نہیں جو ملک میں لاقانونیت، غیر منصفانہ طرز حکومت اور مذہبی انتہا پسندی جیسے ناسوروں کے علاج کے لیے کچھ کرنا چاہے۔ اس ضمن میں کسی قسم کی قابل عمل کوششیں نہیں نظر آتیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔