جمہوریت کی مختلف ممالک میں شکل
26 اپریل 2013ایشیا اور افریقہ کی اُبھرتی ہوئی اقتصادی طاقتوں کے نوجوان اشرافیہ کے لیے جمہوریت کی اصطلاح اکثر خوشحالی اور ثروت مندی کی علامت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یورپی ممالک میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والے نمائندوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں جرمن شہر میونخ میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ اور نیمیٹشک فاؤنڈیشن کے ایما پر ’میپنگ ڈیموکریسی‘ کے عنوان سے مباحثے کی ایک سیریز کا انعقاد ہوا۔ اس کے چوتھے اور آخری پروگرام میں جرمن مؤرخ پاؤل نولٹے اور مصنفہ دانییلا ڈاھن نے بوڈاپسٹ اور ماسکو کے سائنسدانوں اور ثقافتی کارکنوں کے ساتھ بذریعہ ویڈیو کانفرنس اس مباحثے میں حصہ لیا۔ اس پروگرام کی نظامت ڈوئچے ویلے کی مدیر اعلیٰ اوٹے شیفر کر رہی تھیں۔
جمہوری حقوق کی بُردگی کے عمل کا خطرہ
اس پروگرام میں جرمنی، روس اور ہنگری میں جمہوریت کی صورتحال پر بحث ہوئی۔ ان ممالک میں جمہوریت مختلف مرحلوں میں ہے۔ تاہم ان تینوں ممالک میں ایک قدر مشترک ہے وہ ہے یہ سوال کہ،’جمہوریت کی ترقی کو لاحق خطرات سے کیسے بچایا جائے‘۔ یہ سوال ان تینوں ممالک کے رائے عامہ میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ روس میں حکومت اور حکمران سیاسی جماعتوں کی طاقت میں زیادہ سے زیادہ اضافے سے سول سوسائٹی کا دم گھُٹ رہا ہے۔ اُدھر ہنگری میں اپوزیشن کو وکٹر اُربان کی دائیں بازو کی طرف جھکاؤ والی مقبول حکومت کی آئینی اصلاحات سے خطرات لاحق ہیں جب کہ جرمنی میں مناسب طریقے سے موجودہ بحران سے نمٹنے کے لئے پارلیمانی اداروں کی صلاحیتوں پر سےشہریوں کا اعتماد اُٹھتا جا رہا ہے۔
جہاں تک جرمنی کی صورتحال کا تعلق ہے مورخ نولٹے اور مصنفہ ڈھان کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جرمن مصنفہ کا کہنا ہے کہ جرمنی میں عوام ایک ’تماشائی جمہوریت‘ میں رہ رہے ہیں۔ دانییلا ڈاھن 1989 ء میں سابق جرمن ڈیمو کریٹک ریپبلک جی ڈی آر میں تشکیل پانے والی تحریک ’جمہوری بیداری‘ کی بنیادی رکن میں سے ایک ہیں۔ ان کے خیال میں اس وقت جرمن عوام کے پاس تمام تر جواز موجود ہے جمہوری طور پر منتخب، پارلیمانی نمائندوں کے ساتھ صبر و تحمل اور اعتماد کے مظاہرے سے انکار کا۔ ڈھان جرمنی میں امیر اور غریب طبقے کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو تشویش ناک سمجھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پارلیمانی اراکین عوام کے مجموعی مفادات کے لیے نہیں بلکہ اپنے اپنے ووٹروں کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔
ایک "متوسط طبقے کی جمہوریت" کے راستے پر
پاول نولٹے برلن کی فری یونیورسٹی میں جدید تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ وہ مصنفہ ڈھان کی تنقید کو مبالغہ آرائی سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ "بعد از جمہوریت" جیسی اصطلاح سننا بھی نہیں چاہتے۔ ان کے خیال میں اس اصطلاح کا استعمال جمہوریت سے متعلق ایسے مباحثے میں استعمال ہونی چاہیے جس میں ایک ایسے نظام حکومت کی بات کی جا رہی ہو جہاں انتخابات تو منعقد ہوتے ہیں لیکن پارلیمان کو فیصلوں کا حق نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کے بیانات اُن حقائق کو نظرانداز کرتے ہیں جو 70 کے عشرے کے بعد سے مغربی پارلیمانی نظام میں نظر آئے، یعنی جمہوری نظام میں شمولیت کے عمل میں ترقی۔
نولٹے کے مطابق 70 کے عشرے تک مغربی ممالک میں بھی خواتین بمشکل جمہوری نظام کا حصہ بن سکی تھیں۔ موجودہ وقت کے مقابلے میں اُس وقت معاشرہ اُسی فرسودہ درجہ بندی کا شکار تھا۔ نولٹے کہتے ہیں، ’’آج ہمارا سماج اتنا زیادہ، کھلا، آزاد اور نظریہ مساوات انسانی پر مشتمل ہے کہ آج کا 25 سالہ نوجوان ممکنہ طور پر سوچ بھی نہیں سکتا کہ 70 کی دہائی میں جمہوریت کس قدر پدرسری اور کھوکلی اقدار پر قائم تھی‘‘۔
تاہم مصنفہ ڈھان اور پروفیسر اس امر پر متفق ہیں کہ اس وقت معاشرے میں غریب اور امیر کے درمیان پایا جانے والا فرق جمہوریت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ نولٹے کے لیے صرف امیر غریب کا فرق ہی تشویش ناک نہیں ہے بلکہ زیادہ خطرے کا باعث یہ امر ہے کہ جرمنی ایک متوسط طبقے کی جمہوریت کی طرف گامزن ہے۔ ایک ایسی جمہوریت جو تعلیم یافتہ مڈل کلاس پر مشتمل ہے۔ یہ مڈل کلاس یا ’متوسط طبقہ‘ اہم سیاسی فیصلوں اور بڑے منصوبوں پر اثر انداز تو ہوسکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چھوٹی موٹی جاب کرنے والوں اور سوشل بینیفٹ جسے جرمنی میں ’ہارٹس فیئر‘ کہا جاتا ہے، حاصل کرنے والوں کے مفادات کا تحفظ کون کرے گا۔ ان کی بمشکل کوئی لابی ہے۔ پروفیسر نولٹے اور مصنفہ ڈھان متفقہ طور پر اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ جرمنی کے غیر مراعت یافتہ اس طبقے کی جمہوری نظام میں شمولیت کے امکانات اور اہم فیصلوں میں رائے کا حق ہر حال میں دیا جانا چاہیے۔
C.Mende/F.Heimo/km/at