جلاوطن شیخ حسینہ کے دوسری مرتبہ وارنٹ گرفتاری جاری
6 جنوری 2025بنگلہ دیش کے چیف پراسیکیوٹر نے پیر چھ جنوری کو بتایا ہے کہ مفرور شیخ حسینہ کے دوسری مرتبہ وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔
بنگلہ دیش کی یہ عدالت پہلے بھی انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں 77 سالہ شیخ حسینہ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر چکی ہے۔ وہ گزشتہ برس اگست میں طالب علموں کی قیادت میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور حکومت کے خاتمے کے بعد فرار ہو کر اپنے پرانے اتحادی ملک بھارت پہنچ گئی تھیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ان کے 15 سالہ دور میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں، جن میں ان کے سیاسی مخالفین کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔
بنگلہ دیش کے مقامی ''انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘‘ (آئی سی ٹی) کے چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے کہا کہ دوسرا وارنٹ گرفتاری ان کے دور حکومت میں جبری گمشدگیوں سے متعلق ہے۔ بنگلہ دیشی سکیورٹی اہلکاروں نے مبینہ طور پر 500 سے زائد افراد کو اغوا کیا تھا، جن میں سے کچھ کو برسوں تک خفیہ قید خانوں میں رکھا گیا تھا۔
پاکستانی بنگلہ دیشی قربت، جنوبی ایشیائی سیاست میں نیا موڑ
شیخ حسینہ کی برطرفی کے بعد سے متاثرین نے اپنے دردناک واقعات کے ساتھ عوام اور میڈیا کے سامنے آنا شروع کر رکھا ہے۔ تاج الاسلام نے نامہ نگاروں کو بتایا، ''عدالت نے شیخ حسینہ اور ان کے فوجی مشیر، فوجی اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اہلکاروں سمیت کُل 11 افراد کے خلاف وارنٹ جاری کیے ہیں۔‘‘
بنگلہ دیش نے دسمبر میں بھارت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سابق وزیر اعظم حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کے حوالے کرے تاکہ وہ ملک واپس آ کر مقدمات کا سامنا کریں تاہم نریندر مودی حکومت نے اس بنگلہ دیشی درخواست کا جواب دینے سے انکار کر دیا تھا۔
تاج الاسلام کا آج صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عدالت اس مقدمے کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا، ''ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ مقدمے کی سماعت جلد از جلد مکمل ہو لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم قانون کو توڑیں گے یا مناسب کارروائی کے بغیر کوئی فیصلہ نافذ کر دیں گے۔‘‘
شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ان کے درجنوں اتحادیوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ان پر پولیس کے اُس کریک ڈاؤن میں ملوث ہونے کا الزام ہے، جس میں بدامنی کے دوران 700 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ا ا / ا ب ا (اے ایف پی، روئٹرز)