جعفر ایکسپریس پر حملے میں 18 فوجیوں سمیت 26 افراد ہلاک ہوئے
14 مارچ 2025پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جعفر ایکسپریس پر بلوچ عسکریت پسندوں کے حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 26 تک پہنچ گئی ہے، جن میں 18 فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے ہمراہ آج بروز جمعہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ ان کے بقول جن 354 یرغمالیوں کو بازیاب کرایا گیا ہے، ان میں سے بھی 37 زخمی ہیں۔
فوجی ترجمان نے مزید بتایا کہ مرنے والوں میں اٹھارہ فوجیوں کے علاوہ ریلوے پولیس کے تین اہلکار اور پانچ عام شہری بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چار سکیورٹی اہلکار شدت پسندوں کے حملے میں ہلاک ہوئے لیکن ان کا تعلق ٹرین کے مسافروں سے نہیں تھا۔
خیال رہے کہ شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کی تکمیل پر ہلاک شدہ مسافروں کی تعداد 21 بتائی گئی تھی اور یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ ان میں سے کتنے فوجی اہلکار تھے۔ ابتدائی طور ہر کل مسافروں کی تعداد 440 بتائی گئی تھی۔
فوجی ترجمان نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ شدت پسند کسی بھی یرغمالی کو اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب نہ ہوئے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے الزام عائد کیا کہ جفعر ایکسپریس پر حملے کے بعد انڈین میڈیا ویڈیوز کے ذریعے پراپیگنڈا کر رہا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ فوج کی جانب سے اس دشوار گزار علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کی گئی تاہم انہوں نے الزام لگایا کہ اس دوران دہشت گروں کی حمایت میں اطلاعات کی جنگ چل پڑی، جس کی قیادت مبینہ طور پر انڈین میڈیا کر رہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈین میڈیا جعلی ویڈیوز کے ذریعے پراپیگنڈا کر رہا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس بریفنگ کے دوران انڈین میڈیا کے مختلف ویڈیو کلپس بھی چلائے۔ ترجمان نے دعویٰ کیا کہ اس کارروائی اور اس سے پہلے کی کارروائیوں کا مرکزی اسپانسر پڑوسی ملک افغانستان ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کو ہر قسم کی جگہ مل رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جدید غیر ملکی اسلحہ پاکستان میں کی جانے والی کارروائیوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
خیال رہے کہ علیحدگی پسند بلوچ عسکری تنظیم بی ایل اے نے گیارہ مارچ کو بلوچستان کے علاقہ درہ بولان میں ایک مسافر ٹرین پر دھاوا بول دیا تھا۔ بلوچ لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے گرفتار کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم اس واقعے کے دو دن بعد پاکستانی فوج نے کہا تھا کہ اس نے اس ٹرین کے محاصرے کو ختم کرتے ہوئے تمام یرغمالیوں کو رہا کر ا لیا تھا۔
ادھر افغانستان اور بھارت دونوں ہی نے پاکستان کے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے ذریعے ٹرین ہائی جیکنگ کے تازہ واقعے سمیت نسلی بنیادوں پر تشدد کے واقعات میں ملوث ہیں۔
ش ر⁄ م م (نیوز ایجنسیاں)