جرمنی پر فرانس اور یورپی کمیشن کی جاسوسی کے الزامات
30 اپریل 2015جرمن ذرائع ابلاغ کے تین بڑے اداروں این ڈی آر، ڈبلیو ڈی آر اور زوڈ ڈوئچے سائٹنگ کی ایک مشترکہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جرمن خفیہ ادارہ ’بنڈس ناخرشٹن ڈینسٹ‘ (بی این ڈی) امریکی ادارے این ایس اے کو فرانس کے اعلٰی اہلکاروں اور یورپی کمیشن کے معاملات کی نگرانی میں تعاون فراہم کرتا رہا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بی این ڈی نے فرانس کی وزارت خارجہ اور صدارتی محل کے علاوہ برسلز میں یورپی کمیشن کے دفترکی خفیہ معلومات اپنے امریکی ساتھیوں کو فراہم کیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس مقصد کے لیے بی این ڈی نے جنوبی صوبے باویریا میں باڈ آئبلنگ میں قائم اپنے ایک مرکز کو استعمال کیا۔
اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ آج کل جرمنی کے وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کو اِن معاملات کا علم تھا۔ 2008ء میں وہ جرمن چانسلر کے دفتر کے سربراہ تھے اور اُسی وقت اُنہیں بتایا گیا تھا کہ امریکا اپنی نگرانی کی سرگرمیوں کو بڑھانا چاہتا ہے۔ اِس بارے میں ڈے میزیئر کے پیش رو رونالڈ پوفالا نے 2010ء میں مزید تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔ بدھ کے روز تھوماس ڈے میزیئر نے اِن الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت این ایس اے کی سرگرمیوں کے حوالے سے غلط بیانی سے کام نہیں لے رہی۔ ڈے میزیئر نے مزید کہا کہ دستاویز کے ذریعے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔ اُن کے بقول وہ جرمن پارلیمان کی انٹیلی جنس کمیٹی اور پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کو اس بارے میں مزید تفصیلات سے آگاہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ کمیٹیاں این ایس اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے انکشافات کے بعد قائم کی گئی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق اس دوران فرانس اور یورپی کمیشن کی اقتصادی سرگرمیوں کی نگرانی کی گئی کیونکہ امریکا اسلحے کے غیر قانونی کاروبار سے متعلق معلومات تک رسائی چاہتا تھا۔ ابھی ایک ہفتہ قبل ہی بی این ڈی پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اُس نے کئی سالوں تک یورپی کمپنیوں اور سیاستدانوں کی جاسوسی میں امریکیوں کا ساتھ دیا تھا۔
اسے بنڈس ناخرشٹن ڈینسٹ کی 59 سالہ تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا اسکینڈل قرار دیا جا رہا ہے۔ جرمنی اور امریکا کے مابین نگرانی کے حوالے سے 2002ء میں ایک معاہدہ ہوا تھا اور اس کے بعد سے صرف ایک مرتبہ ہی قواعد و ضوابط پر بات چیت کی گئی ہے۔ زوڈ ڈوئچے سائٹنگ، این ڈی آر اور ڈبلیو ڈی آر کے مطابق صرف 2013ء میں چھ لاکھ نوّے ہزار ٹیلیفون نمبرز اور7.8 ملین آئی پی ایڈریسز کی چھان بین کی درخواست کی گئی تھی۔