جرمنی ميں پريس کی آزادی، 50 سال
26 اکتوبر 201226 اکتوبر 1962ء کی رات جو کچھ ہوا اُس کے اثرات جرمنی ميں سياستدانوں، عدليہ اور صحافيوں کے آپس کے تعلق پر آج تک محسوس کيے جاتے ہيں۔
يہ سارا معاملہ يہاں سے شروع ہوا تھا کہ جرمنی کے معروف سياسی ہفت روزے Der Spiegel نے فوج کے بارے ميں ايک تنقيدی مضمون چھاپا تھا۔ اس ميں کہا گيا تھا کہ جرمن فوج صرف ’مشروط طور پر‘ دفاع کر سکتی ہے اور يہ کہ اُسے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر حال ميں ايٹمی ميزائل استعمال کرنا ہوں گے۔ مضمون کا مصنف صحافی نيٹو کی ايک فوجی مشق کے تجزيے کے بعد اس نتيجے پر پہنچا تھا۔
جرمنی کے چوٹی کے سياستدانوں نے اسے ملک سے غداری کا نام ديا۔ يہ چانسلر کونراڈ آڈے ناؤر کا زمانہ تھا اور وزير دفاع فرانس يوزف اشٹراؤس تھے۔ وکيل استغاثہ نے مضمون کے مصنف اور اشپيگل کے مدير اعلٰی کے وارنٹ گرفتاری جاری کر ديے۔ مديراعلٰی کو 100 دن سے زائد جيل ميں گذارنا پڑے۔ اشپيگل کے ادارتی دفاتر کئی ہفتوں تک بند رہے۔
رياستی طاقت کی طرف سے صحافيوں کے خلاف اس اقدام پر عوام کے بعض حلقوں اور خود اُس وقت کی مخلوط حکومت کے سياستدانوں نے احتجاج کيا تھا۔ اس کے نتيجے ميں وزير دفاع اشٹراؤس کو استعفٰی دينا پڑا تھا کيونکہ يہ واضح ہو گيا تھا کہ اشپيگل کے خلاف کارروائی ميں اُن کا سب سے زيادہ ہاتھ تھا۔
اس کے علاوہ وفاقی عدالت نے يہ فيصلہ ديا کہ اس سياسی جريدے کی طرف سے رياستی رازوں کے افشا کيے جانے کا کوئی ثبوت موجود نہيں تھا۔ سوشل ڈيموکريٹک پارٹی ايس پی ڈی کے ديرينہ رکن سياستدان اور ميڈيا گروپ ’واتس‘ کے مينجر بوڈو ہومباخ نے ڈوئچے ويلے سے کہا: ’’سياست کی طرف سے پريس پر اثرانداز ہونے کے اس قسم کے احمقانہ واقعات اتنے بڑے انداز ميں اب ممکن نہيں ہيں۔‘‘
جرمن صحافيوں کی وفاقی ايسوسی ايشن کے چيئر مين ميشائل کونکن نے بھی کہا کہ ہمارے يہاں اخباروں اور نشرياتی اداروں کا انداز بہت تنقيدی ہے اور وہ بد عنوانيوں اور خرابيوں کو منظر عام پر لاتے رہتے ہيں۔ ليکن انہيں يہ بھی تسليم کرنا پڑا کہ تنظيم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے پچھلے برسوں ميں جرمنی کو صحافت کی آزادی کے لحاظ سے صرف 17 سے 19 درجے تک جگہ دی ہے، جس سے جرمنی ميں مسائل کا پتہ چلتا ہے۔ اسکينڈی نيويا کے ممالک پہلے درجے پر آتے ہيں۔
W.Dick,sas/A.Lichtenberg,km