جرمنی: مخلوط حکومت کی پارٹی کا ٹيلی فون اسکينڈل
26 اکتوبر 2012جرمنی کی مخلوط حکومت کی ايک پارٹی سی ايس يو کے پريس ترجمان کے بارے ميں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے معروف ٹيلی وژن چينل زيڈ ڈی ايف کو فون کيا اور کہا کہ وہ مخالف پارٹی ايس پی ڈی کے باويريا پارٹی اجلاس کے بارے ميں کوئی رپورٹ نشر نہ کرے۔ اس اسکينڈل کے نتيجے ميں انہيں مستعفی ہونا پڑا ہے۔
جرمنی کی مخلوط حکومت ميں شامل پارٹی سی ايس يو کے پريس ترجمان ہانس ميشائل اسٹريپ کی ٹيلی وژن اسٹيشن زيڈ ڈی ايف کو کی جانے والی ٹيلی فون کال کے بارے ميں صحيح تفصيلات تو ابھی تک دستياب نہيں ليکن صرف يہ فون کال اور اس کے بعد اسٹريپ کا استعفٰی ہی يہ ظاہر کرنے کے ليے کافی ہيں کہ ايک بار پھر ايک سياستدان نے ايک حد کو عبور کيا ہے جو کہ ناقابل برداشت ہے۔
ميڈيا اور رائے عامہ سياستدانوں کی طرف سے ڈالے جانے والے ناجائز دباؤ کے خلاف بہت حساس ہو گئے ہيں اور اس قسم کی ہر کوشش پر اُن کا رد عمل شديد ہوتا ہے۔ سی ايس يو کے قائد ہورسٹ زے ہوفر نے کہا ہے کہ اُن کی پارٹی آئندہ ہفتوں کے دوران اس بارے ميں وضاحت کرے گی۔ ليکن پريس ترجمان اسٹريپ نے استعفٰی دے کر خود کو حملے کی براہ راست زد سے نکال ليا ہے۔ تاہم اس سے يہ معاملہ ختم نہيں ہو گيا ہے۔
جرمن صحافيوں کی ايسوسی ايشن کے سيورنر نے کہا کہ يہ ٹيليفون کال رپورٹنگ کی آزادی پر ايک زبردست حملہ تھی۔ ميڈيا اور اطلاعات کے شعبے کے پروفيسر اشٹيفن وائشرٹ نے کہا: ’’ميڈيا پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہميشہ سے ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی ہو گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ يہ پريس کی آزادی کے ليے قطعی طور پر نقصان دہ ہے۔
صحافيوں کی ايسوسی ايشن کے سيورنر نے کہا کہ يہ بہت غلط حرکت جرمنی ميں کوئی روز مرہ کا معمول نہيں ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران پريس کی آزادی کے بارے ميں عوامی شعور کافی بيدار ہو گيا ہے۔ ميڈيا کے علوم کی ماہر باربرا ٹومس نے کہا: ’’مجھے اس پر اطمينان ہے کہ ميڈيا پر ناجائز اثر ڈالنے کی کوشش پر عوام کا رد عمل بہت سخت ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ يہ شعبہ کتنا حساس ہے۔‘‘ انہوں نے يہ بھی کہا کہ مختلف مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحافيوں پر ڈھکے چھپے يا کھلے طور پر دباؤ ڈالنے کی کوششيں ہوتی رہتی ہيں۔
R.Breuer,sas/B.Hinrichs,km