جرمنی جیتا تو خوشیاں پاکستان میں بھی منائی گئیں
14 جولائی 2014ورلڈکپ فائنل کی افتتاحی تقریب سے ہی ماحول میں سماں بندھ گیا۔ کک آف ہوتے ہی شائقین کا جوش و خروش آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ پہلے ہاف میں، جب بھی بال جرمن کھلاڑیوں کے پاس جاتی تھی تو جذبات نعروں میں بدل جاتے تھے۔
ارجنٹائن کے کھلاڑی گول کا چانس مس کرتے تو فٹ بال کے دلدادہ خوشی سے جھوم اٹھتے۔ پہلے ہاف کے اختتام پر قرعہ اندازی کے ذریعے وہاں موجود شائقین میں جرمنی کا ایئر ٹکٹ تقسیم کیا گیا۔ اسی طرح وہاں موجود شائقین میں فٹ بالز بھی بانٹی گئیں۔ دوسرے ہاف میں بھی کوئی گول نہ ہوا تو فٹ بال ورلڈکپ فائنل کے میچ میں شائقین کی دلچسپی مزید بڑھ گئی۔ ہاتھوں میں جرمنی کے جھنڈے لیے اور چہرے پر جھنڈے کا عکس بنوائے شائقین ہر ہٹ پر خوب دھمال ڈالتے۔ شائقین نے بتایا کہ بڑی اسکرین پر فٹ بال میچ دیکھنے کا اپنا ہی مزا ہے۔
مقررہ وقت بغیر کسی گول کے ختم ہوا تو دونوں ٹیموں کو اضافی وقت دیا گیا۔ اضافی وقت میں جب گیند جرمن کھلاڑیوں کے پاس آتی تو ماحول گرم ہوجاتا۔ جرمنی کے قائم مقام قونصل جنرل نے ڈؤئچے ویلے کو بتایا کہ جرمن قونصلیٹ میں یہ رونق پاکستانی اور جرمن عوام کی کھیل سے محبت کا ثبوت ہے، جس فٹبال کو گول میں پہنچا کر جرمنی نے ورلڈکپ حاصل کیا وہ ‘میڈ ان پاکستان’ ہے۔ جرمن قونصلیٹ کے ایک پاکستانی اہلکار نے کہا کہ اگر ارجنٹائن کے پاس میسی ہے تو جرمنی کے پاس بھی گول کیپر مانویل نوئیر ہے، جس پر میسی کا جادو نہیں چلے گا۔
گرما گرم میچ پر میوزک نے بھی خوب تڑکہ لگایا۔ شکیرا کے گانے پر شائقین بھی ساتھ ساتھ ‘لا لا’ میں لے سے لے ملاتے رہے اور پھر جرمنی کی قسمت کا ستارہ گوئٹزے کی شکل میں جاگا۔ گیند کو جال میں پہنچاتے ہی گوئٹزے جرمن قوم کا ہیرو بن گیا۔ ایک طرف اسٹیڈیم میں شائقین کا جوش و خروش آسمان کو چھورہا تھا تو دوسری طرف جرمن قونصیلیٹ میں شائقین کا جوش و ولولہ اونچی پرواز بھرنے لگا۔ شائقین نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جرمن قونصلیٹ میں میچ دیکھنا ان کے لیت زندگی کا یادگار تجربہ تھا۔ دوسری جانب کراچی میں جہاں جہاں بڑی اسکرینیں لگی ہوئی تھیں وہاں شائقین نے رات جاگ کر جرمنی کی کامیابی کا خوب جشن منایا۔ شہر میں جرمنی کے پرچم بھی نمایاں تھے۔ فٹ بال نے سرحدوں کے فاصلوں سے قطع نظر دو قوموں کو ملایا ہے۔