جرمنی: انسانی حقوق کی کونسل کی رکنيت کی درخواست
12 نومبر 2012جرمنی اس سال کے آخر تک سلامتی کونسل کا غير مستقل رکن رہے گا۔ ليکن جرمن حکومت کی خواہش ہے کہ اس کے بعد بھی اُسے اقوام متحدہ کا ايک اہم ساتھی سمجھا جاتا رہے۔ اس ليے وہ 2013ء سے2015ء تک اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی رکنيت کے ليے آج درخواست دے رہا ہے۔
جرمن وزارت خارجہ کی ايک ترجمان نے ڈوئچے ويلے کو بتايا کہ انسانی حقوق کا تحفظ جرمنی کے بنيادی مقاصد ميں سے ايک ہے اور اس ليے وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے کام ميں مدد دینا چاہتا ہے۔ جرمن وزير خارجہ گيڈو ويسٹر ويلے انسانی حقوق کی کونسل ميں جرمنی کی رکنيت کی درخواست داخل کرانے کے ليے خود امريکہ گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق جرمن حکومت کے ليے بہت اہم ہيں۔ ويسٹر ويلے نے نيويارک ميں ’جرمن ہاؤس‘ ميں جمع مہمانوں سے خطاب کرتے ہوئے يہ بھی کہا کہ وہ اس موضوع پر کھل کر بات کیے جانے کے خواہاں ہیں۔
انسانی حقوق کے جرمن انسٹيٹيوٹ کی ڈائریکٹر بیاٹے روڈولف نے ڈوئچے ویلے کو ديے گئے ايک انٹرويو ميں کہا کہ جرمنی نے ماضی میں اقوام متحدہ کے دائرے ميں انسانی حقوق کی مؤثر انداز میں حمايت کی ہے۔ انہوں نے کہا:’’سلامتی کونسل ميں جرمنی نے اُن بچوں کے حقوق میں آواز بلند کی، جن سے زبردستی فوجيوں ککا کام لیا جاتا ہے۔ جرمنی نے خاص طور پر بنيادی حقوق، مثلاً رہائش، صاف پانی اور نکاسیء آب کے حق کے لیے کام کيا۔ يہ انسانی حقوق کی کونسل کی رکنيت کے ليے جرمنی کے انتخاب کے حق ميں اچھے دلائل ہيں۔‘‘
بیلجيئم، ناروے اور امريکہ کی رکنيت کے خاتمے کی وجہ سے مجموعی طور پر کونسل ميں سات اراکين کا نيا انتخاب ہونا ہے۔ امريکہ، سويڈن، آئر لينڈ اور يونان ايک بار پھر کونسل کی رکنيت کے خواہاں ہيں۔ جرمنی کی رکنيت کا امکان 50 فیصد ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے 47 اراکين کا انتخاب جنرل اسمبلی میں خفيہ ووٹنگ کے ذريعے عمل میں آتا ہے۔ اس ميں مغربی ممالک کے گروپ کی سات نشستيں، مشرقی يورپ کی چھ، افريقہ کی تيرہ، ايشيا کی تيرہ، لاطينی امريکہ کی آٹھ اور کيريبئن ممالک کے لئے آٹھ نشستيں ہيں۔ جرمنی اس کونسل کے قيام کے بعد سے 2009ء تک تين برسوں تک اس کونسل کا رکن رہ چکا ہے۔
رکنيت کی درخواست کے ساتھ جرمن حکومت نے يہ ذمہ داری بھی قبول کی ہے کہ اگر جرمنی انسانی حقوق کی کونسل کا رکن منتخب ہو گيا تو وہ ’دنيا بھر ميں انسانی حقوق کے تحفظ کے ليے کونسل کے قائدانہ کردار‘ کو وسعت دے گا اور اس سلسلے میں علاقائی تعاون کو بہتر بنائے گا۔
M.Gehrke,sas/T.Kohlmann,aa