جرمن چانسلر کا غزہ میں جنگ بندی اور امداد کی فراہمی پر زور
وقت اشاعت 18 جولائی 2025آخری اپ ڈیٹ 18 جولائی 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- جرمن چانسلر کا غزہ میں جنگ بندی اور امداد کی فراہمی پر زور
- پاکستان: گلگت بلتستان میں جھیلوں کے قریب نئے ہوٹلوں کی تعمیر پر پابندی
- سویدا میں خونریزی کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، اقوام متحدہ کا مطالبہ
- پوپ لیوکا غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے نیتن یاہو پر زور
- یورپی یونین کی روس کے خلاف پابندیوں کا اٹھارہواں پیکج منظور
- جرمنی سے ملک بدری: 81 افغان شہری واپس وطن بھیج دیے گئے
- اسرائیل نے سویدا کے قریب تازہ فضائی حملوں کی تردید کر دی
- شامی حکومت کی سویدا میں سکیورٹی فورسز کی دوبارہ تعیناتی کی تردید
جرمن چانسلر کا غزہ میں جنگ بندی اور امداد کی فراہمی پر زور
جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے آج بروز جمعہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ٹیلیفون پر گفتگو کے دوران غزہ پٹی میں فوری جنگ بندی کی امید ظاہر کی اور زور دیا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل کو محفوظ اور باوقار طریقے سے متاثرہ شہریوں تک پہنچنے دیا جائے۔
وفاقی جرمن حکومت کے ترجمان کے مطابق چانسلر میرس نے کہا، ’’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہنگامی امداد اب محفوظ اور انسانی بنیادوں پر غزہ پٹی کے عوام تک پہنچنا چاہیے۔‘‘
انہوں نے ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا، ’’حماس کا غیر مسلح کیا جانا ناگزیر ہے۔‘‘ میرس نے مقبوضہ مغربی کنارے کے الحاق کے کسی بھی ممکنہ اسرائیلی اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، ’’مغربی کنارے کے الحاق کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا جانا چاہیے۔‘‘
قبل غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق جمعے کو اسرائیلی فضائی حملوں میں شمالی اور جنوبی غزہ پٹی میں مزید کم از کم 14 افراد ہلا ک ہو گئے۔ اس ایجنسی کے اہلکار محمد المغیر کے مطابق، ’’خان یونس کے علاقے میں دو الگ الگ حملوں میں 10 افراد مارے گئے، جن میں سے ایک حملہ ایک مکان پر اور دوسرا بے گھر افراد کے خیموں پر کیا گیا۔‘‘
اسی دوران شمالی علاقے جبالیہ النزلہ میں ایک مختلف فضائی حملے میں بھی چار افراد ہلاک ہو گئے۔ غزہ پٹی میں میڈیا پر سخت پابندیوں اور متعدد علاقوں تک رسائی میں مشکلات کے باعث نیوز ایجنسی اے ایف پی آزادانہ طور پر ان ہلاکتوں کی تصدیق نہ کر سکی۔ اسرائیلی فوج نے بھی فوری طور پر نئے فضائی حملوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
پاکستان: گلگت بلتستان میں جھیلوں کے قریب نئے ہوٹلوں کی تعمیر پر پابندی
پاکستان نے گلگت بلتستان میں واقع خوبصورت جھیلوں کے ارد گرد نئے ہوٹلوں کی تعمیر پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد خطے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تباہی کو روکنا ہے۔
گلگت بلتستان دنیا میں سب سے زیادہ، تقریباﹰ 13,000 گلیشیئرز کا گھر ہے۔ یہ قطبی علاقوں سے باہر کسی بھی ملک میں گلیشیئرز کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اسی سبب یہ علاقہ حالیہ برسوں میں سیاحوں کی بڑی تعداد کی توجہ کا مرکز بھی بنا ہے۔ تاہم بلاضابطہ ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کی تعمیر سے مقامی ماحولیاتی نظام اور پانی اور بجلی کے وسائل پر بوجھ بڑھ گیا ہےاور نکاسی کے انتظامات کا بھی بحران پیدا ہو گیا ہے۔
گلگت بلتستان ماحولیاتی تحفظ اتھارٹی کے سینیئر افسر خادم حسین نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اگر ہم نے ہوٹلوں کی تعمیر کی یہی رفتار جاری رکھی، تو یہاں کنکریٹ کا جنگل اگ آئے گا۔ لوگ یہاں سیمنٹ دیکھنے نہیں بلکہ فطری حسن سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں۔‘‘
یہ فیصلہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب گزشتہ ماہ ایک غیر ملکی سیاح نے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی، جس میں عطا آباد جھیل کے کنارے قائم ایک ہوٹل کی جانب سےگندا پانی جھیل میں خارج کیے جانے کا انکشاف کیا گیا تھا۔ یہ جھیل نہ صرف سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے بلکہ ہنزہ کے لیے پینے کے پانی کا اہم ذریعہ بھی ہے۔
یہ ویڈیو وائرل ہونے کے اگلے ہی دن متعلقہ ہوٹل پر پانچ ہزار ڈالر سے زائد جرمانہ عائد کیا گیا۔ ہنزہ ویلی کے مقامی سیاسی کارکن آصف سخی نے حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے سیاحت اور ترقی کے نام پر تیزی سے تبدیلیاں دیکھی ہیں، جو ہماری قدرتی جھیلوں اور دریاؤں کو تباہ کر رہی ہیں۔‘‘
ایک ہوٹل مینیجر اور مقامی رہائشی شاہ نواز نے بھی اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے کہا، ’’ماحولیاتی تحفظ اور قدرتی خوبصورتی کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔‘‘ یہ فیصلہ مقامی برادری اور ماحولیاتی ماہرین کی دیرینہ تشویش کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔
سویدا میں خونریزی کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، اقوام متحدہ کا مطالبہ
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر فولکر ترک نے شام کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنوبی شہر سویدا میں ہونے والی حالیہ ہلاکت خیز جھڑپوں کی آزادانہ، فوری اور شفاف تحقیقات کرائے اور اس کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
فولکر ترک نے جمعے کے روز اپنے ایک بیان میں کہا، ’’یہ خونریزی اور تشدد فوری طور پر بند ہونا چاہییں، اور تمام افراد کا تحفظ اولین ترجیح ہونا چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’انتقام اور بدلے کا راستہ مسائل کا حل نہیں ہے۔‘‘
ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب شامی حکومت نے جمعرات کو ملک کے دروز اکثریتی علاقے سویدا سے اپنی افواج واپس بلا لیں، جہاں کئی روز سے دروز جنگجوؤں اور سنی بدو قبائل کے درمیان شدید جھڑپیں جاری تھیں۔
رپورٹوں کے مطابق گزشتہ اتوار سے جاری ان فرقہ وارانہ جھڑپوں میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ شامی فوج اور اس کے اتحادیوں پر بھی اس خونریزی میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔
اس دوران اسرائیل نے سویدا اور دارالحکومت دمشق میں شامی افواج پر فضائی حملے کیے، جن میں فوجی ہیڈکوارٹرز سمیت کئی مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ جب تک شامی حکومتی فوج جنوبی علاقے سے پسپائی اختیار نہیں کرتی، فضائی حملے جاری رہیں گے۔
فولکر ترک نے زور دیا کہ شام میں آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ مزید جانیں ضائع نہ ہوں اور انصاف کے تقاضے بھی پورے کیے گئے ہوں۔
پوپ لیوکا غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے نیتن یاہو پر زور
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے آج جمعے کے روز کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ لیو سے ٹیلیفون پر بات چیت کی۔ یہ رابطہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ پٹی میں قائم واحد کیتھولک چرچ کو نشانہ بنانے کے ایک دن بعد کیا گیا ہے۔ اس حملے میں تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
ویٹیکن کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس ٹیلیفون گفتگو کے دوران پوپ لیو نے ایک بار پھر فوری جنگ بندی اور غزہ پٹی میں جنگ کے مکمل خاتمے کی اپیل کی اور اس فلسطینی علاقے میں ’’انتہائی سنگین‘‘ انسانی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
پوپ نے زور دیا کہ عبادت گاہوں، مذہبی برادریوں اور تمام شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے، خواہ وہ فلسطینی علاقوں میں ہوں یا اسرائیل میں۔
یہ ٹیلیفونک رابطہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب غزہ پٹی میں جاری جنگ میں عام شہریوں اور مذہبی مقامات کو بار بار نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس پر بین الاقوامی سطح پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
یورپی یونین کی روس کے خلاف پابندیوں کا اٹھارہواں پیکج منظور
یورپی یونین نے اٹھارہ جولائی بروز جمعہ روس کے خلاف پابندیوں کا 18واں پیکج منظور کر لیا، جس کا مقصد یوکرین پر حملے کے تناظر میں روسی توانائی اور تیل کی صنعت کو مزید نقصان پہنچانا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اس نئے پیکج کے تحت جی سیون ممالک کی روسی خام تیل کی خریداری کے لیے قیمت کی حد کو کم کر کے 47.6 ڈالر فی بیرل مقرر کیا گیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں کہا، ’’یورپی یونین نے روس کے خلاف اپنی اب تک کی سب سے سخت پابندیوں میں سے ایک کے تحت نئے پیکج کی منظوری دی ہے۔ ہم دباؤ میں مسلسل اضافہ کریں گے تاکہ ماسکو کے لیے جارحیت روکنا ہی واحد راستہ بن جائے۔‘‘
یاد رہے کہ یورپی یونین اور اس کے اتحادی ممالک روس پر مسلسل اقتصادی دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں تاکہ یوکرین کی جنگ کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
اگرچہ یورپی یونین نے روس پر اپنی تازہ ترین پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماسکو اب بھی اپنا بیشتر تیل پرانی قیمت کی حد سے زیادہ پر فروخت کرنے میں کامیاب رہا ہے کیونکہ موجودہ نظام میں یہ واضح نہیں کہ ان پابندیوں پر عمل درآمد کی نگرانی کس کی ذمہ داری ہے۔
تیل کے تاجروں کو شبہ ہے کہ یورپی یونین کی نئی پابندیاں روسی تیل کی تجارت کو نمایاں طور پر متاثر نہیں کر پائیں گی۔ نئی پابندیوں میں نارڈ اسٹریم گیس پائپ لائنز سے متعلق تمام مالیاتی لین دین پر بھی پابندی شامل ہے، جو کہ بحیرہ بالٹک کے نیچے روس کو یورپ سے جوڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ روسی مالیاتی شعبے پر بھی مزید قدغنیں لگائی گئی ہیں۔
کایا کالاس نے کہا کہ نئی پابندیاں روس کی ’’شیڈو فلیٹ‘‘ کے زیر انتظام 105 بحری جہازوں کو بھی ہدف بناتی ہیں۔ مغربی ممالک کے حکام کے مطابق یہ وہ بحری جہاز ہیں، جن کو روس اپنے خلاف تیل کی فروخت سے متعلقہ پابندیاں کے سلسلے میں چکمہ دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
کالاس کے مطابق چین کے بعض بینکوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جو روس کی ان یورپی پابندیوں سے بچنے میں معاونت کرتے ہیں۔ تاہم انہوں نے ان بینکوں کے نام نہیں بتائے۔ یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے یورپی یونین کے فیصلے کو ’’اہم اور بروقت‘‘ قرار دیا ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت پر جب روس نے یوکرینی شہروں اور قصبوں پر اپنے فضائی حملے تیز تر کر دیے ہیں۔
دوسری جانب کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے جمعے کے روز عائد کردہ ان نئی یورپی پابندیوں پر اپنے ردعمل میں کہا کہ روس نے مغربی پابندیوں کے خلاف ’’ایک حد تک مدافعت‘‘ پیدا کر لی ہے اور وہ ان پابندیوں سے ہم آہنگ ہو چکا ہے۔
پیسکوف نے ان پابندیوں کو’’غیرقانونی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ’’ہر نئی پابندی ان ممالک کے لیے منفی نتائج لاتی ہے، جو اسے نافذ کرتے ہیں۔‘‘
جرمنی سے ملک بدری: 81 افغان شہری واپس وطن بھیج دیے گئے
جرمن وزارت داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ 18 جولائی جمعے کی صبح 81 افغان باشندوں کو واپس ان کے وطن بھیج دیا گیا۔ یہ پرواز لائپزگ شہر کے ہوائی اڈے سے روانہ ہوئی اور یہ نئی وفاقی جرمن حکومت کی جانب سے افغانستان بھیجی جانے والی جبری واپسیوں کی پہلی پرواز تھی۔
یہ اقدام وفاقی چانسلر فریڈرش میرس کی قیادت میں قائم موجودہ جرمن حکومت کی اس نئی پالیسی کا حصہ ہے، جس کا مقصد جرائم پیشہ اور خطرناک افراد کی افغانستان واپسی کو ممکن بنانا ہے۔
برلن میں جرمن وزارت داخلہ کے ایک بیان کے مطابق، ’’آج صبح، جرمنی نے اجتماعی واپسی کی ایک کارروائی کے تحت 81 افغان شہریوں کو ان کے آبائی ملک واپس بھیج دیا۔ یہ تمام افراد ایسے افغان مرد تھے، جن پر ملک چھوڑنے کی قانونی ذمہ داری عائد ہوتی تھی اور ان کے مجرمانہ ریکارڈ بھی موجود تھے۔‘‘
جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام موجودہ مخلوط حکومت کے قیام سے قبل طے پانے والے داخلی سیاسی معاہدے میں کیے گئے اس وعدے پر عمل درآمد ہے، جس کے تحت ایسے افغان باشندوں کی واپسی کو ممکن بنایا جانا تھا، جو مجرمانہ پس منظر رکھتے ہوں یا جرمنی میں سیکورٹی کے لیے خطرہ سمجھے جاتے ہوں۔
وفاقی جرمن حکومت کی جانب سے افغانستان میں طالبان حکام سے بات چیت بھی کی گئی ہے، حالانکہ برلن سرکاری طور پر کابل میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرتا۔ ان رابطوں اور جبری واپسیوں کے فیصلے پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید بھی کی جا رہی ہے، جو افغانستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بنیاد بنا کر ایسی ملک بدری کو غیر انسانی اقدام قرار دے رہی ہیں۔
جرمن وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ قطر نے جرمنی سے ملک بدری کی اس کارروائی میں لاجسٹک معاونت کی۔ فلائٹ ریڈار 24 ویب سائٹ کے مطابق قطر ایئرویز کا ایک طیارہ جمعے کی صبح مقامی وقت کے مطابق 8:35 پر لائپزگ سے روانہ ہوا، حالانکہ اس پرواز کی روانگی صبح سات بجے کے لیے طے تھی۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے، جب یورپ میں پناہ گزینوں یا پناہ کے متلاشی تارکین وطن کی ان کے آبائی ممالک کو واپسی کے معاملات ایک بار پھر سیاسی اور انسانی حقوق کے حوالے سے زیر بحث ہیں۔
اسرائیل نے سویدا کے قریب تازہ فضائی حملوں کی تردید کر دی
اسرائیل نے جمعے کے روز شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے اس دعوے کی تردید کی، جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج نے گزشتہ رات دروز اکثریتی شہر سویدا کے قریب مزید فضائی حملے کیے۔ ایک اسرائیلی فوجی ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اسرائیلی فوج کو شام میں رات کے وقت کسی فضائی حملے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔‘‘
واضح رہے کہ اسرائیل نے رواں ہفتے سویدا اور دارالحکومت دمشق میں شامی فوجی ٹھکانوں پر حملے کیے تھے۔ ان حملوں کا مقصد شام کی اسلام پسند حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ سویدا کے دروز اکثریتی علاقے سے اپنی فورسز واپس بلا لے۔
ان حملوں کے بعد شامی فوج جمعرات کو واقعی اس علاقے سے پیچھے ہٹ گئی تھی۔ اس انخلا کو اسرائیلی دباؤ کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے، تاہم اسرائیل نے کسی نئی کارروائی سے مکمل لاعلمی ظاہر کی ہے۔
شامی حکومت کی سویدا میں سکیورٹی فورسز کی دوبارہ تعیناتی کی تردید
شام کی وزارت داخلہ کے ترجمان نے آج بروز جمعہ واضح کیا ہے کہ حکومت سویدا میں افواج کی دوبارہ تعیناتی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ یہ بیان سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا کے ذریعے جاری کیا گیا۔
وزارت کے ترجمان نورالدین البابا نے خبر رساں ادارے روئٹرز کی اُس رپورٹ کو مسترد کر دیا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزارت داخلہ کے ایک میڈیا افسر کے مطابق سکیورٹی فورسز دروز اکثریتی علاقے سویدا میں دوبارہ تعیناتی کی تیاری کر رہی ہیں تاکہ دروز اور بدو قبائل کے درمیان جاری جھڑپوں کو روکا جا سکے۔
نورالدین البابا کا کہنا تھا، ’’ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور نہ ہی ایسی کوئی تیاری کی جا رہی ہے۔‘‘
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں دروز اقلیت اور سنی بدو قبائل کے درمیان پرتشدد جھڑپوں کے بعد حکومتی فورسز نے سویدا سے انخلاء کیا تھا، اور مقامی ذرائع کے مطابق اب علاقے کا کنٹرول مقامی دروز جنگجوؤں کے پاس ہے۔
اس سے قبل خبر رساں ادارے روئٹرز نے شام کی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے حوالے سے خبر دی تھی کہ سرکاری سکیورٹی فورسز جلد ہی دروز اکثریتی شہر سویدا میں دوبارہ تعینات کر دی جائیں گی۔
اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ انہوں نے شامی حکومت کو جنوبی شام سے اپنی فورسز واپس بلانے کا انتباہ کیا تھا اور واضح کیا ہے کہ وہ اپنی سرحد کے قریب ’’اسلام پسند حکمرانوں‘‘ کو کوئی عسکری قوت جمع کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
اس سے قبل برطانیہ میں قائم اور انسانی حقوق کی نگران غیر سرکاری شامی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ شام کے جنوبی صوبے سویدہ میں حالیہ دنوں میں دروز مذہبی اقلیت اور سنی بدو قبائل کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں کل تک کم از کم 360 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔
سن 2006 ء سے شام میں حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرنے والی اس تنظیم کا کہنا ہے کہ شام کی سرکاری افواج اب سویدہ شہر اور صوبے سے مکمل طور پر نکل چکی ہیں۔ ان کی جگہ مقامی دروز ملیشیا نے وہاں سکیورٹی کا انتظام سنبھال لیا ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیوز میں شامی فوجیوں کو رات کے اندھیرے میں سویدہ سے نکلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ادھر سویدہ 24 ویب سائٹ کے ایڈیٹر انچیف ریان معروف نے بھی اے ایف پی کے ساتھ گفتگو میں تصدیق کرتے ہوئے کہا، ’’سویدہ میں اب کوئی سرکاری فوجی موجود نہیں۔‘‘
ادارت: مقبول ملک، عدنان اسحاق