جرمن معیشت کی کامیابی کا راز
21 اکتوبر 2013یہ ہے ’جرمن ماڈل‘ جس سے ہر کوئی مرعوب نظر آرہا ہے۔
معیشت کی ترقی اور کامیابی کا دار و مدار معاشی نظم و ضبط پر ہوتا ہے کیونکہ یہی نظم و ضبط معاشی سرگرمیوں کے لیے ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔ جرمنی میں اس نظم وضبط کو ’’سوشل مارکیٹ اکانومی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مارکیٹ سرمایہ داری، سماجی پالیسیوں اور سوشل انشورنس کا مرکب ایک ایسا نظام ہے، جسے اکثر مربوط مارکیٹ اکانومی بھی کہا جاتا ہے۔
اس نظام کی بنیاد ایک طرف تو سرمایہ دارانہ مقابلے کی دوڑ ہوتی ہے دوسری جانب یہ ریاست کو سماجی پالیسیوں میں بہتری لانے کے لیے اقدامات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ جرمنی کیی ’’سوشل مارکیٹ اکانومی‘‘ کی جڑیں 19 ویں صدی سے ملی ہوئی ہیں۔
ویرنر شرائبر جرمن صوبے سیکسنی انہالٹ کے سابق وزیر برائے سماجی امور ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ بسمارک، جنہیں اپنے وقت کا آئرن چانسلر یا چانسلرِ آہن کہا جاتا تھا، نے سماجی قوانین وضع کیے تھے جن میں پنشن اور ہیلتھ انشورنس کو شامل کیا گیا تھا۔‘‘
ان قوانین کے تحت پنشن اور ہیلتھ انشورنس کی ماہانہ قسط کا نصف حصہ آجر ادا کرتا ہے اور نصف کام کرنے والا۔ یہ اصول دور حاضر کے سماجی قوانین کی بنیاد ہے۔ ان قوانین کو دوسری عالمی جنگ کے بعد خاندانی امور، سماجی امداد اور کئی دیگر شعبوں کی پالیسیوں کا حصہ بنایا گیا اور یہ آج تک رائج ہیں۔
جرمن معیشت کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہاں لیبر یونینوں اور آجرین کے مابین ایک شراکت داری یا پارٹنرشپ کا تعلق بھی پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں بہت کم ہڑتالیں ہوتی ہیں۔
ایک وقت ایسا تھا جب جرمنی میں بے روزگاری کی سطح تشویش ناک حد تک بڑھ گئی تھی۔ تاہم اسی اثناء میں جرمنی کی روزگار کی منڈی میں ایک معجزہ پیش آیا۔ اچانک 42 ملین افراد کو روزگار میسر ہوا۔ روزگار سے وابستہ انسانوں کی اتنی بڑی تعداد اس سے پہلے جرمن تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ اس کامیابی کا سہرا ’’ایجنڈا 2010ء کے سر ہے‘‘۔ دس سال قبل جرمنی میں روزگار کی منڈی میں یہ اصلاحات متعارف کرائی گئی تھیں۔
اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ایک ماہر ’’اولی بُروکنر‘‘ کہتے ہیں، ’’اس ضمن میں ایک نہایت اہم امر کم اُجرت کے سیکٹر اور روزگار کی منڈی کی ڈی ریگولیشن اور اسے لچکدار بنانا ہے۔ اس کے سبب ایک طرف تو نئی آسامیاں پیدا ہوئی ہیں دوسری جانب بہت کم اجرت والی جابز پیدا ہوئی ہیں۔‘‘
’اولی بُروکنر‘ کا کہنا ہے کہ جرمنی میں کوئی بھی نئی حکومت بنائے، اُس کی کوشش یہی ہوگی کہ ان اصلاحات کے منفی ضمنی اثرات دور کرے۔