جرمن تاريخ کا ايک سياہ باب: یہودیوں کی املاک پر نازیوں کے حملے
نو اور دس نومبر 1938ء کو نازی جرمنی میں یہودی مخالف واقعات رونما ہوئے، جنہیں ’کرسٹال ناخٹ‘ یعنی ’ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات’ کہا جاتا ہے۔ اُس رات یہودی عبادت گاہوں اوراملاک پر حملوں کے نتیجے میں سڑکوں پر شیشے بکھر گئے تھے۔
نو اور دس نومبرکی رات کیا ہوا تھا؟
نازی نیم فوجی دستے ’ایس اے‘ کی قیادت میں سامیت مخالف شہریوں کا مجمع جرمنی کی سڑکوں پر نکلا۔ مشرقی جرمن شہر کیمنٹس کی اس یہودی عبادت گاہ کی طرح دیگرعلاقوں میں بھی یہودیوں کی املاک پر حملے کیے گئے۔ اندازے کے مطابق صرف ایک رات میں یہودیوں کے زیر ملکیت کم ازکم ساڑھے سات ہزار کاروباری مراکز کو نقصان پہنچایا گیا اور سامان لوٹا گیا۔
نام کے پیچھے کیا پوشیدہ ہےِ؟
جرمن یہودیوں کے خلاف ہونے والے اس تشدد کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ برلن میں اسے ’کرسٹال ناخٹ‘ (Night of Broken Glass) کہتے ہیں، جس کے اردو میں معنی ہیں ’ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات‘۔ اُس رات یہودی عبادت گاہوں، گھروں اور یہودیوں کے کاروباری مراکز پر منظم حملوں اور تباہی کے نتیجے میں جرمنی کی سڑکوں پر جگہ جگہ شیشے بکھر گئے تھے۔
سرکاری موقف کیا تھا؟
یہ واقعات ایک جرمن سفارت کار ارنسٹ فوم راتھ کے ایک سترہ سالہ یہودی ہیرشل گرنزپان کے ہاتھوں قتل کے بعد شروع ہوئے تھے۔ راتھ کو سات نومبر کو پیرس میں جرمن سفارت خانے میں قریب سے گولی ماری گئی تھی اور وہ ایک دن بعد انتقال کر گئے تھے۔ گرنزپان کو سزائے موت نہیں دی گئی تھی لیکن کسی کو یہ نہیں علم کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کيا گيا تھا۔
حملے اور تشدد کیسے شروع ہوا؟
سفارت کار ارنسٹ فوم راتھ کے قتل کے بعد اڈولف ہٹلر نے اپنے پروپگینڈا وزیر جوزیف گوئبلز کو یہ کارروائی شروع کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس سے قبل ہی کچھ مقامات پر ہنگامہ آرائی شروع ہو چکی تھی۔ گوئبلز نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ نازی یہودیوں کے خلاف اچانک شروع ہونے والے کسی بھی احتجاج کو نہيں روکیں گے۔ اس دوران جرمنوں کی زندگیوں اور املاک کی حفاظت کرنے کی بھی ہدایات دی گئی تھیں۔
کیا یہ تشدد عوامی غصے کا اظہار تھا؟
ایسا نہیں تھا، بس یہ نازی جماعت کی سوچ کا عکاس تھا، لیکن کوئی بھی اسے سچ نہیں سمجھ رہا تھا۔ نازی دستاویزات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان حملوں اور تشدد کا منصوبہ پہلے ہی تیار کیا جا چکا تھا۔ یہ غیر واضح ہے کہ اس بارے میں عام جرمن شہریوں کی رائے کیا تھی۔ اس تصویر میں ایک جوڑا ایک تباہ حال دکان کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہی رائے رکھتی تھی۔
نازیوں کو کیا امید تھی؟
اپنے نسل پرستانہ نظریات کی وجہ سے نازی چاہتے تھے کہ یہودی رضاکارانہ طور پر جرمنی چھوڑ دیں۔ اس مقصد کے لیے یہودیوں کو سڑکوں پر گھمایا جاتا تھا ور سرعام ان کی تذلیل کی جاتی تھی۔ اس تصویر میں یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ نازیوں کے ظلم و ستم سے پریشان ہو کر فرار ہونے والے یہودیوں پر مختلف قسم کے محصولات عائد کیے گئے اور اکثر ان کی املاک بھی ضبط کر لی گئی تھیں۔
کیا نازی اپنے مقصد میں کامیاب رہے؟
ان پرتشدد واقعات کے بعد جرمن یہودیوں اور ملک چھوڑ جانے والوں کو نازیوں کے ارادوں کے بارے میں کوئی شکوک وشبہات نہیں رہے تھے۔ تاہم اس طرح کے کھلے عام تشدد پر غیر ملکی میڈیا میں کڑی تنقید کی گئی۔ اس کے بعد یہودیوں پر لازم کر دیا گیا کہ وہ اپنے لباس پر پیلے رنگ کا ستارہ داودی لگا کر باہر نکلیں گے۔
حملوں کے بعد کیا ہوا؟
ان حملوں کے بعد نازی حکام نے یہودی مخالف اقدامات کی بوچھاڑ کر دی، جن میں ایک طرح کا ایک ٹیکس بھی عائد کرنا تھا۔ اس کا مقصد ہنگامہ آرائی کے دوران ہونے والے نقصان کی ادائیگی تھا۔ کرسٹال ناخٹ اور اس کے بعد کی دیگر کارروائیوں میں ایک اندازے کے مطابق تقریباﹰ تیس ہزار یہودیوں کو قیدی بنا لیا گیا تھا، کئی ہلاک ہوئے اور باقی یہودیوں کو جرمن علاقوں کو چھوڑ کر چلے جانے کے وعدے کے بعد آزاد کیا گیا تھا۔
کرسٹال ناخٹ کا تاریخ میں کیا مقام ہے؟
1938ء میں ہولوکاسٹ یعنی یہودیوں کا قتل عام شروع ہونے میں ابھی دو سال باقی تھے۔ عصر حاضر کے ایک تاریخ دان کے مطابق کرسٹال ناخٹ کے دوران کی جانے والی کارروائیوں کا مقصد یہودیوں کو اقتصادی اور سماجی طور پر تنہا کرنا تھا اور انہیں اس بات پر مجبور کرنا تھا کہ وہ جرمن علاقے چھوڑ دیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دوران91 یہودی شہری ہلاک ہوئے جبکہ کہا جاتا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔