خلیجی ممالک میں مہاجرین اورمقامی افراد کے درمیان ثقافتی تناؤ
8 ستمبر 2025تقریباً دو سال قبل متحدہ عرب امارات میں 'سب وے‘ فاسٹ فوڈ چین کی جانب سے ایک ملازمت کا اشتہار دیا گیا، جس نے ملک گیر سطح پر بحث چھیڑ دی۔ اس اشتہار میں اماراتی شہریوں کو سینڈوچ بنانے جیسے کاموں کے لیے مدعو کیا گیا تھا، جو روایتی طور پر ان کے سماجی کردار سے مختلف تصور کیا جاتا ہے۔
اماراتیوں نے اس پیشکش کو ''توهین‘‘، ''تمسخر‘‘ اور ’’مقامی باشندوں پر حملہ‘‘ قرار دیا اور اماراتی پراسیکیوٹرز نے اس ’’متنازعہ مواد‘‘ پر تحقیقات کا اعلان کیا۔
دسمبر 2022 کا یہ اشتہار دبئی کی ایک بڑی کمپنی 'کمال عثمان جمجوم گروپ‘ نے دیا تھا، جو دراصل صرف نئی حکومتی پالیسی کے تحت اماراتیوں کی ایک مخصوص شرح کو بھرتی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’اماراتائزیشن‘‘ نامی ان نئے قوانین کا مقصد یہ ہے کہ 2026 کے آخر تک 50 یا اس سے زیادہ ملازمین والی کمپنیوں میں عملے کا 10 فیصد اماراتی ہونا چاہیے۔
چونکہ یہ ایک کم تنخواہ والی ملازمت تھی، جو عام طور پر اماراتی شہری نہیں کرتے اور بے روزگار اماراتی نوجوان بھی کرنا پسند نہیں کرتے۔ اس لیے اس پر شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ ایک یونیورسٹی محقق کے مطابق، جو امارات میں رہتے ہیں لیکن حکومتی عتاب کے خطرے کی وجہ سے نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، کے مطابق یہ ردعمل حکومت کے خلاف نہیں بلکہ کمپنی کے خلاف تھا لیکن یہ بالواسطہ طور پر حکومتی پالیسیوں پر بھی تنقید تھی۔
سعودی عرب میں بھی اسی طرح کے ''سعودائزیشن‘‘ قوانین ہیں جنہیں گزشتہ دو برسوں میں مزید سخت کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، 100 ملازمین والی کمپنی میں کم از کم 30 فیصد سعودی عملہ ہونا ضروری ہے۔
سب وے کی نوکری کا تنازعہ اس بات کی صرف ایک مثال ہے کہ خلیجی ریاستوں میں مزدور پالیسیوں نے کس طرح کشیدگی پیدا کی ہے۔
خلیج میں نیا سماجی معاہدہ؟
کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے ماہرین کے مطابق، اس طرح کی معاشی پالیسیاں خلیجی ریاستوں کے پرانے سماجی معاہدے کو کمزور کر رہی ہیں۔
ماضی میں ریاست، تیل کی آمدنی پر انحصار کرتے ہوئے، ہمیشہ روزگار، رہائش اور دیگر فوائد فراہم کرتی تھی۔ گویا معاہدہ یہ تھا کہ حکومت عوام کی کفالت کرے گی اور عوام آمرانہ طرزِ حکومت کو قبول کریں گے۔ لیکن تیل کی قیمتوں میں کمی، دنیا کی ہائیڈروکاربن سے دوری اور بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی (اور بے روزگاری) نے اس معاہدے کو قائم رکھنا مشکل بنا دیا ہے۔
اس کے جواب میں، خلیجی حکومتیں اب غیر تیل پر مبنی معیشت اور نجی کاروبار کو فروغ دے رہی ہیں، نوجوانوں کو کاروبار کی طرف مائل کر رہی ہیں اور سرکاری شعبے کے بجٹ میں کمی کر رہی ہیں۔
قطر میں قائم ''مڈل ایسٹ کونسل آن گلوبل افیئرز‘‘ کے محقق فریڈریک شنیڈر کے مطابق، ''جیسے جیسے حکومتیں شہریوں کو سرکاری ملازمتوں سے نکال کر غیر محفوظ نجی شعبے میں بھیجنے اور تیل پر مبنی فلاحی مراعات میں کٹوتی کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، بے چینی بڑھ رہی ہے۔‘‘
مثال کے طور پر، سعودی حکومت نے جنوری میں 'گولڈن ہینڈ شیک‘ اسکیم متعارف کرائی، جو سعودی شہریوں کو سرکاری شعبے سے نکل کر نجی شعبے میں جانے کی ترغیب دیتی ہے۔
امارات میں مقیم محقق کے مطابق،''ان نئے منصوبوں کے ساتھ ایک ایسا بیانیہ بھی سامنے آیا ہے جس میں سرکاری ملازمتوں، جن کا وعدہ ان کے والدین اور دادا دادی سے کیا گیا تھا، کو آسان یا حتیٰ کہ سست انتخاب قرار دیا جا رہا ہے۔‘‘
اب غیر ملکی ’لیبر مارکیٹ کے حریف‘
ساتھ ہی خلیجی ممالک غیر ملکی مزدوروں کو متوجہ کرنے کے لیے بھی اقدامات کر رہے ہیں، جیسے جائیداد کی ملکیت، طویل مدتی رہائش، اور کچھ سماجی و مذہبی پابندیوں میں نرمی۔
امارات نے یہ عمل 2000 کی دہائی کے وسط میں شروع کیا تھا جبکہ سعودی عرب نے حال ہی میں (2025 کے وسط سے) ہنرمند کارکنوں کے ویزے متعارف کرائے ہیں اور 2026 سے غیر ملکیوں کو جائیداد رکھنے کی اجازت دی ہے۔
سعودیوں نے 2021 میں یہ بھی اعلان کیا تھا کہ غیر ملکی کمپنیاں جن کے صدر دفاتر سعودی عرب میں نہیں ہیں، وہ حکومتی ٹھیکوں کی اہل نہیں ہوں گی۔
متحدہ عرب امارات میں مقیم محقق نے کہا، ''یہ معاشی تبدیلیاں نئے سماجی تناؤ کو جنم دے رہی ہیں کیونکہ یہ واضح طور پر مخصوص غیر ملکیوں کو ترجیح دیتی ہیں اور چونکہ اماراتی اور سعودی شہری بھی نجی شعبے میں آ رہے ہیں، نئے مہاجرین کو روزگار کے حریف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔‘‘
اس کے نتیجے میں نئی سماجی و ثقافتی تصادم کی صورتحال بھی پیدا ہوئی ہیں۔ قدامت پسند مقامی افراد غیر ملکیوں کے لیے کیے گئے اقدامات سے ناخوش ہیں، مثلاً ہفتہ وار تعطیل کو جمعہ- ہفتہ سے ہفتہ-اتوار میں بدلنے پر بحث، غیر اسلامی تہوار جیسے کرسمس پر بڑھتی ہوئی توجہ اور مبینہ طور پر غیر ملکیوں کی وجہ سے جسم فروشی اور شراب نوشی میں اضافہ۔
سماجیات کے ایک محقق کے مطابق، ''امارات میں 2000 کی دہائی کے وسط میں یہ سوچ ابھری کہ یہ نئے طور طریقے اور طرزِ زندگی ایک طرح کی ناگزیر برائی ہیں۔‘‘ مثال کے طور پر، غیر ملکیوں کو متوجہ کرنے کے لیے شراب کی فروخت کی اجازت دینا۔
لیکن سعودی عرب میں، جہاں یہ تبدیلی ابھی شروع ہوئی ہے، انہی ''ممنوع چیزوں کو اب لازمی قرار دیا جا رہا ہے تاکہ ریاض کو عالمی سطح پر ایک جدید شہر بنایا جا سکے۔‘‘
غزہ تنازعہ اور بڑھتی کشیدگی
مڈل ایسٹ کونسل کے محقق شنیڈر کے مطابق، امارات میں غزہ جنگ نے ان سماجی تناؤ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ''امارات میں اسرائیلی کمپنیوں، خاص طور پر سکیورٹی شعبے سے تعلق رکھنے والی اور سیاحوں کی آمد نے حالات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے کیونکہ یہ ادارے اور افراد براہِ راست غزہ میں جاری نسل کشی میں شامل ہیں۔‘‘
اس ہفتے،'انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینوسائیڈ اسکالرز‘ نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، اگرچہ اسرائیل اس الزام کو رد کرتا ہے۔
شنیڈر کے مطابق، خلیجی ریاستوں کے مقامی باشندوں میں مغرب کے بارے میں بھی بدگمانی بڑھ رہی ہے، چاہے وہ غزہ تنازعے پر مغربی رویے کی منافقت ہو یا امریکہ جیسے اتحادیوں کی کم ہوتی ہوئی اہمیت۔
وہ کہتے ہیں، ''غیر ملکی کاروباروں کو مقامی کاروباروں کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا ہے، مثال کے طور پر ''سعودی عرب میں نیوم اور دیگر منصوبوں پر مغربی کنسلٹنسی کمپنیوں پر خرچ کی گئی بڑی رقوم نہ صرف وزارتوں بلکہ نئی مقامی کنسلٹنسی کمپنیوں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہیں۔‘‘
ادارت: کشور مصطفیٰ