کچھ ہفتے قبل میں نے عالمی یومِ آبادی کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی۔ وہاں ایک نوجوان ڈاکٹر نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ت،یس سال کے بعد خواتین میں بیضوں کا معیار کم ہوتا جاتا ہے اور انہیں حمل ٹھہرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کی بات میرے ذہن میں اٹک گئی۔ میں نے سوچا مجھے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کرنی چاہیے۔ میں نے
اسلام آباد کی مشہور گائناکولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر ناہید بانو سے رابطہ کیا اور ان۔ سے اس بارے میں پوچھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایگ فریزنگ کی سہولت ان لڑکیوں اور خواتین کے لیے ہے جو پینتیس سال کی عمر کے بعد ماں بننے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عورت پینتیس سال کی عمر تک عموماً بغیر کسی بڑی مشکل کے حاملہ ہو سکتی ہے لیکن اس کے بعد اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر ایسی خواتین نے پہلے ہی اپنے بیضے منجمد کروا رکھے ہوں تو وہ ان کا استعمال کر کے آسانی سے بچہ پیدا کر سکتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایگ فریز کرنے کے لیے سب سے پہلے عورت کو ہارمونل انجیکشن دیے جاتے ہیں تاکہ ایک وقت میں کئی بیضے تیار ہو سکیں وگرنہ قدرتی طور پر ہر ماہ صرف ایک بیضہ تیار ہوتا ہے۔ اس دوران ڈاکٹر الٹراساؤنڈ اور خون کے ٹیسٹ کے ذریعے بیضوں کی نشوونما اور ہارمونز کی سطح کو مسلسل مانیٹر کرتے رہتے ہیں۔ جب بیضے مکمل طور پر تیار ہو جاتے ہیں تو انہیں ایک باریک سوئی کے ذریعے اووری سے نکالا جاتا ہے۔ پھر انہیں فوری طور پر خاص طریقے سے منجمد کیا جاتا ہے۔ یہ بیضے سالوں منجمد رکھے جا سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر ناہید بانو نے بتایا کہ پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں ایگ فریزنگ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ البتہ نجی فرٹیلیٹی کلینکس اور ہسپتالوں میں یہ سہولت موجود ہے۔ اس عمل پر تقریباً تین سے پانچ لاکھ روپے کی لاگت آتی ہے۔ پھر بیضوں کو منجمد رکھنے کی سالانہ فیس ادا کرنی پڑتی ہے جو تیس ہزار سے پچاس ہزار روپے تک ہو سکتی ہے۔ عورت جب چاہے اپنے منجمد بیضوں کو حمل کے لیے استعمال کر سکتی ہے لیکن اس کی کامیابی کی شرح صرف تقریباً تیس فیصد ہوتی ہے۔
پاکستان میں ایگ فریزنگ قدرے نیا تصور ہے۔ اس پر جتنی بات ہو رہی ہے، اتنا یہ عمل اصل میں نہیں ہو رہا۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ ہمارے ہاں بہت سی لڑکیوں کی شادی بیس کی دہائی میں ہی ہو جاتی ہے۔ وہ جلد ہی ماں بھی بن جاتی ہیں۔ اس لیے ہمارے ہاں بڑے پیمانے پر اس عمل کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ جن کی شادیاں دیر سے ہوتی ہیں وہ بہت سے دباؤ اور مسائل کا شکار ہوتی ہیں۔ ان کے ذہن میں کم ہی ایسی سوچ آتی ہے کہ مستقبل میں اگر وہ ماں نہ بن سکیں تو؟ جو اس بارے سوچتی ہیں انہیں پھر پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں اس مسئلے کا حل نکالنا اتنا آسان نہیں ہے۔
پاکستان میں کئی کلینکس غیر شادی شدہ لڑکیوں اور خواتین کو بیضے منجمد کروانے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان کی یہ سہولت زیادہ تر ان شادی شدہ خواتین کے لیے ہوتی ہے جو بانجھ پن کے علاج کے عمل سے گزر رہی ہوں یا ان خواتین کے لیے جو کسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوں۔
پروفیسر ڈاکٹر ناہید بانو نے بتایا کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی خواتین میں ایگ فریزنگ زیادہ عام ہے۔ ان ممالک میں ان کی زندگی پاکستان کے مقابلے میں آسان ہوتی ہے۔ وہ اپنے لیے بغیر کسی دباؤ یا خوف کے فیصلے کر سکتی ہیں۔ پاکستان میں فی الحال لڑکیوں اور خواتین کو اپنی زندگی میں ویسا اختیار حاصل نہیں ہے۔
ہمارے پدرشاہی معاشرے میں عورت کا جسم مرد کی ملکیت تصور کیا جاتا ہے، چاہے وہ مرد ابھی اس کی زندگی میں موجود بھی نہ ہو۔ اس کا خاندان، معاشرہ اور نظام اسے اپنے ہی جسم پر اپنا حق سمجھنے کی جگہ نہیں دیتے۔ بہت سی عورتیں اس عمل کے ساتھ جڑی رقم ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ کچھ کے لیے شادی کے بعد اپنے شوہر اور اس کے گھر والوں کو یہ بتانا کہ اس کے بیضے پہلے سے منجمد ہیں اور وہ انہیں استعمال کرنا چاہتی ہے، مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
اس عمل میں عورت کے جسم میں ایک لمبی سوئی داخل کی جاتی ہے تاکہ بیضے نکالے جا سکیں۔ یہ بہت سی غیر شادی شدہ لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کے لیے مسئلہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں شادی کے قابل ہونے کے لیے لڑکی کے زندہ اور صحت مند ہونے سے زیادہ اس کا باکرہ ہونا زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ کئی لڑکیاں اور عورتیں شادی کے بعد صرف اس شک کی بنا پر تشدد کا شکار ہوتی ہیں کہ ان کے شوہر کو وہ باکرہ محسوس نہیں ہوئیں۔ ڈاکٹر پیٹ کے ذریعے بھی بیضے نکال سکتے ہیں لیکن پیٹ پر اس سرجری کا نشان بھی اس معاشرے میں اس لڑکی یا عورت کی زندگی مشکل بنا سکتا ہے۔
ہم انتہائی پیچیدہ سیاسی، سماجی اور معاشرتی نظام میں رہتے ہیں۔ ان نظاموں کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہماری خواتین اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے کچھ کرنے کے باوجود بھی نہیں کر پاتیں۔ ہم بار بار عورت سے کہتے ہیں کہ اپنے مسائل خود حل کرے، خود آگاہ ہو اور خود ہی مضبوط بنے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ عورت اکیلی نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ اس کا خاندان، معاشرہ، پیچیدہ اور بوسیدہ نظام اور صدیوں پرانی روایات و تعصبات بھی ہوتے ہیں۔ اس کے مسائل حل کرنے کے لیے صرف اسے آگاہی دینا یا اسے درپیش مسئلے کا حل دینا کافی نہیں ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ ساتھ اپنے لڑکوں، مردوں اور خاندانوں کو آگاہ کرنا ہو گا، ان کی تربیت کرنی ہو گی اور اپنے نظام بدلنے ہوں گے۔ تب کہیں جا کر ہماری لڑکیاں اور خواتین اپنی زندگی بہتر کرنے کے لیے بغیر کسی ڈر اور خوف کے کوئی بھی قدم اٹھا سکیں گی اور اس کے بعد انہیں کسی پریشانی کا سامنا بھی نہیں کرنا ہو گا۔
اسی لیے پاکستان میں ایگ فریزنگ پر بات کرتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم اس کے ساتھ جڑے معاشرتی مسائل پر بھی بات کریں اور انہیں حل کرنے کی کوشش کریں ورنہ یہ طبی جدت جو خواتین کی زندگی بہتر کرنے کے لیے متعارف کروائی گئی ہے، ان کی زندگیاں آسان کرنے کی بجائے مزید مشکل کرے گی۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔