تھائی لینڈ میں مارشل لاء کا نفاذ
20 مئی 2014آج منگل کے روز دارالحکومت بنکاک میں علی الصبح فوج کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ دارالحکومت اور ملک کے طول و عرض میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے۔ ہنگامی حالت کا بھی نفاذ کر دیا گیا ہے۔ فوج کے اعلان کے مطابق مارشل لاء کا مقصد ملک میں امن کا قیام اور قانون کی حکمرانی ہے تا کہ عوام کو راحت و سکون میسر ہو سکے۔ فوج نے عوام کو تلقین کی ہے کہ وہ مارشل لاء کے نفاذ سے افراتفری کا شکار نہ ہوں۔
تھائی فوج کے سربراہ جنرل پرایُت چان اوچا (Prayuth Chan ocha) نے جو مارشل لاء نافذ کیا ہے، اس کے بعد پورے ملک میں امن عامہ اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سویلین حکومت اور پولیس سے فوج کو منتقل ہو گئی ہے۔ دوسری جانب عبوری وزیراعظم کے ایک مشیر کا کہنا ہے کہ فوج نے مارشل لگاتے ہوئے اُن کی حکومت سے مشاورت نہیں کی ہے اور وہ بدستور اپنی جگہ قائم ہے۔
مبصرین کے مطابق فوج کے اِس اقدام سے تھائی سیاسی بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا فوج نے مارشل لاء لگاتے ہوئے سویلین حکومت کو بھی گھر بیج دیا ہے۔ فوج کے ٹیلی وژن چینل پر بتایا گیا ہے کہ مارشل لاء کا نفاذ بغاوت نہیں ہے۔ ایسے خدشات سامنے آئے ہیں کہ سابق وزیر اعظم یِنگ لَک شناوترا کے حامی مارشل لاء کو بغاوت قرار دے کر مظاہروں کو طول دے سکتے ہیں۔ ملک کی مجموعی صورت حال کے تناظر میں الیکشن کمیشن نے بیس جولائی کے روز انتخابات کے انعقاد کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔
فوج کی جانب سے مارشل لاء کا نفاذ مسلسل چھ ماہ سے جاری حکومت مخالف مظاہروں کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اب حکومت کے حامی بھی مظاہروں میں شامل ہو گئے تھے۔ گزشتہ روز حکومت مخالف مظاہرین نے عبوری حکومت کے مستعفی ہونے کا مطالبہ ایک بار پھر دہرایا تھا۔ عبوری وزیر اعظم Niwattumrong Boonsongpaisan نے فوری طور پر مستعفی ہونے کو خارج از امکان قرار دیا تھا۔ دستوری عدالت کی جانب سے یِنگ لَک شناوترا کے وزارت عظمیٰ سے فارغ کیے جانے کے بعد سے تھائی لینڈ میں سیاسی صورت حال خراب تر ہو گئی تھی۔
تھائی لینڈ میں فوج کی جانب سے مارشل لاء کے نفاذ سے سیاسی اور سول سوسائٹی کے حلقوں کو حیرانی ہوئی ہے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ملک تھائی لینڈ میں سن 1932 کے بعد سے فوج گیارہ مرتبہ بغاوت کے ذریعے سویلین حکومتیں ختم کر چکی ہے۔ سن 1932 میں مطلق العنان بادشاہت کا خاتمہ کیا گیا تھا۔