تھائی لینڈ میں حکومت مخالف مظاہرین کی نظریں فوج پر
12 دسمبر 2013اس احتجاج کی قیادت کرنے والے سابق نائب وزیر اعظم سوتھیپ تھاؤگسوبان نے کہا ہے کہ پولیس اور عسکری سربراہ جمعرات کی شام تک ان سے ملاقات کریں اور ملک میں جاری اس بحران میں کسی فریق کے ساتھ شامل ہو جائیں۔
تھائی لینڈ میں فوج کو سیاسی طور پر مضبوط تصور کیاجاتا ہے جو گزشتہ 80 برس کے دوران اٹھارہ مرتبہ اقتدار پر قبضہ کر چکی ہے یا ایسا کرنے کی کوشش کر چکی ہے۔ فوج نے ہی 2006ء میں یِنگ لک شناواترا کے بھائی تھاکس شناواترا کی حکومت کا تختہ بھی اُلٹ دیا تھا۔
اب فوج نے کہا ہے کہ وہ اس مرتبہ تنازعے کا حصہ نہیں بننا چاہتی تاہم ثالث کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ تازہ بحران کا مرکز بھی سابق وزیر اعظم تھاکسن شناواترا ہی ہیں جو غریبوں کے ہر دلعزیز رہنما رہے ہیں۔ مظاہرین یِنگ لک شناواترا کو تھاکسن کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔
تھاکسن شناواترا نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر رکھی ہے۔ وہ دیہی ووٹروں کی مدد سے یکے بعد دیگرے 2001ء اور 2005ء کے انتخابات میں فاتح رہے تھے۔ ان کی حکومت ہٹانے کے بعد ان پر بدعنوانی کا مقدمہ قائم کیا تھا جس میں انہیں 2008ء میں غیرحاضری میں سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم وہ اپنے خلاف الزامات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کرتے ہیں کہ وہ ان کے سیاسی مخالفین نے اپنے فائدے کے لیے گھڑے ہیں۔
اُدھر بنکاک بدستور وزیر اعظم کے خلاف مظاہروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ جمعرات کو مظاہرین کا ایک چھوٹا سا گروپ گورنمنٹ ہاؤس کی دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہو گیا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تاہم یہ مظاہرین وہاں تعینات پولیس سے مڈبھیڑ کے بغیر ہی دفاتر سے نکل گئے۔ مظاہرین چاہتے ہیں کہ گورنمنٹ ہاؤس پر تعینات پولیس کو ہٹا دیا جائے۔
دوسری جانب تھائی لینڈ کے سابق وزیر اعظم ابھیشیت ویجاجیوا پر جمعرات ہی کو تین سال قبل بنکاک میں اپوزیشن کے مظاہرین پر خونی کریک ڈاؤن کے تناظر میں قتل کا مقدمہ قائم کر دیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل کے دفتر کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا: ’’ہم نے ان (ابھیشیت) پر مقدمہ قائم کر دیا ہے۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت کی منظوری دے دی ہے۔‘‘
2010ء میں ابھیشیت کی حکومت کے خلاف مظاہرے کے دوران بنکاک میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں 90 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ تقریباﹰ 1900 افراد زخمی ہوئے تھے۔