ترکی کا کیا کریں، یورپی وزراء مشکل میں
25 جون 2013ترکی اور یورپی یونین کے تعلقات آج کل زیادہ اچھے نہیں جا رہے، اس کے باوجود یونین میں ترکی کی شمولیت کے موضوع پر مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ جرمنی کی مفاہمتی تجویز پر کیا گیا ہے۔
یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے موضوع پر مذاکرات کا سلسلہ 2010ء سے تعطل کا شکار چلا آ رہا ہے۔ ان مذاکرات میں مجموعی طور پر 35 سیاسی شعبوں میں بات چیت ہونا قرار پائی ہے تاہم اب تک ان میں سے محض ایک شعبے پر کام مکمل ہو سکا ہے۔ اس کے بعد مزید ایک درجن شعبوں پر مذاکرات شروع کیے گئے تاہم 2010ء کے بعد سے یہ مذاکراتی سلسلہ منقطع ہے۔
ترکی پر جمہوری قدروں کی پاسداری کے لیے زور
مظاہرین کے خلاف ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن کی طرف سے طاقت کے استعمال کے بعد سے یورپ بھر میں احتجاج ہو رہا ہے۔ 24 جون کو لکسمبرگ میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے نیٹو میں اپنے ساتھی رکن ملک ترکی پر زور دیا کہ اُسے ’بنیادی جمہوری اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے اور پُر امن مظاہرین کو اپنے سیاسی افکار کے آزادانہ اظہار کا حق دینا چاہیے‘۔
جرمنی، آسٹریا اور ہالینڈ کا تو موقف یہ ہے کہ موجودہ حالات میں یونین میں ترکی کی شمولیت سے متعلقہ مذاکرات کا سلسلہ بحال کیا ہی نہیں جانا چاہیے کیونکہ مذاکرات کی بحالی ایردوآن کی پالیسیوں کو جائز قرار دینے کے مترادف ہو گی۔
ترکی: مختلف یورپی ممالک کا مختلف موقف
ترکی کے حوالے سے پورے یورپ کا کوئی ایک موقف نہیں ہے۔ لکسمبرگ میں آسٹریا کے وزیر خارجہ مشائیل سپنڈلیگر نے کہا کہ بات ترکی کا راستہ روکنے کی نہیں ہے بلکہ ضروری یہ ہے کہ جو کچھ ترکی میں ہو رہا ہے، اُس کی طرف سے آنکھیں بند نہ کی جائیں۔ اس کے برعکس بیلجیم کے وزیر خارجہ ڈیڈیئر رائنڈرز کا موقف یہ ہے کہ مذاکرات ہونے چاہیں کیونکہ یہ ایک موقع فراہم کرتے ہیں کہ ترکی کے ساتھ چند ایک اصولوں کے سلسلے میں براہ راست بات چیت کی جائے۔
دوسری جانب سویڈن کے وزیر خارجہ کارل بِلٹ نے برلن، ویانا اور دی ہیگ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ’مختلف ممالک کی یونین میں شمولیت کے لیے ہونے والے مذاکرات یورپی یونین کی ایک طویل المدتی اور کامیاب پالیسی کا حصہ ہیں، جو اس براعظم میں امن اور استحکام کا باعث بنی ہے۔ اس پالیسی کو محض اس لیے مختصر مدتی مُوڈز کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا کہ کہیں کچھ لوگ گھبرا گئے ہیں۔ ذمے دارانہ سیاست کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے‘۔
یونین میں ترکی کی شمولیت کے مخالف ممالک
جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے اپنے سخت موقف کے باوجود مفاہمت کا اشارہ دیا اور کہا کہ ترکی کے ساتھ مکالمت کا راستہ بند نہیں کیا جائے گا تاہم ان مذاکرات کی بحالی کا انحصار ترکی کے حالات میں ہونے والی پیشرفت پر ہو گا۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن بھی ترکی کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہیں تاہم اُن کی مصالحانہ کوششیں اُن چند یورپی حکومتوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں، جو سرے سے ہی یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے خلاف ہیں۔ ان میں جرمن حکومت بھی شامل ہے۔ جرمنی میں آج کل ستمبر میں مجوزہ عام انتخابات کے لیے مہم جاری ہے اور چونکہ جرمن عوام کی اکثریت بھی یونین میں ترکی کی شمولیت کے خلاف ہے، اس لیے اس موضوع پر بحث مباحثہ معمول سے زیادہ شدت لیے ہوئے ہے۔
شام کا تنازعہ اور یورپی ملکوں کا اختلاف رائے
یورپی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شام کے موضوع پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ شامی باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کے حوالے سے یورپی ممالک کے یکساں موقف میں گزشتہ چند ہفتے سے دراڑ پڑ چکی ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ یورپی یونین کا جو رکن ملک چاہے، وہ شامی باغیوں کو اسلحہ فراہم کر سکتا ہے۔ برطانیہ اور فرانس ان ہتھیاروں کی فراہمی پرعائد پابندی ختم کرنے پر زور دے رہے تھے تاہم اب یہ دونوں ممالک نمایاں طور پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جبکہ اُن کے ناقدین کا موقف سچ ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ آسٹریا کے وزیر خارجہ کے خیال میں ہتھیاروں کی فراہمی ’خود اپنی ہی پالیسیوں سے منہ موڑنے کے مترادف ہو گی‘۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کو ہتھیار فراہم کر کے کسی ایک فریق کا ساتھ نہیں دینا چاہیے اور یہ کہ یورپی یونین امن کی علمبردار یونین ہے۔
لکسمبرگ کے وزیر خارجہ ژاں ایسل بورن نے تو یہ تک کہہ دیا:’’اگر ہم میں سے ہر کوئی یورپی یونین میں ہونے والے فیصلوں یعنی ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی پر قائم رہتا تو آج شام میں یہ بے رحمانہ واقعات پیش نہ آ رہے ہوتے۔‘‘ ویسر وٹلے نے بھی ہتھیاروں کی فراہمی کے سود مند ہونے کے حوالے سے شک و شبے کا اظہار کیا:’’ہم کسی فوجی حل کے ذریعے شام میں پائیدار بنیادوں پر امن اور جمہوریت قائم نہیں کر سکتے۔ یا تو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل نکلے گا یا پھر کوئی بھی پائیدار حل نہیں نکلے گا۔‘‘
آج کل یورپی یونین کے ممالک کے ہاں شام کے مسئلے کے حوالے سے بے بسی کی سی کیفیت ہے۔ اب رکن ممالک کی حکومتوں کی امید بھری نظریں جنیوا میں مجوزہ امن کانفرنس پر لگی ہوئی ہیں حالانکہ ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ یہ کانفرنس ہو گی بھی یا نہیں۔
C.Hasselbach/aa/zb