تحفظ پاکستان بِل سے انسانی حقوق کی پامالی کا اندیشہ
14 اپریل 2014مسلم لیگ ن اس مسودہء قانون کو باقاعدہ قانونی شکل دینے کی کوشش میں ہے تاہم پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ق، جمعیت علمائے اسلام، متحدہ قومی مومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے بشمول متعدد قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتوں نے کھل کر اس بل سے متعلق اپنی ناپسندیدگی ظاہر کر دی ہے۔
انسانی حقوق کی علمبردار بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے ارکان پارلیمان پر زور دیا ہے کہ وہ اس مسودہء قانون کا راستہ روکیں۔ ہیومن راٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف سے جب ڈی ڈبلیو نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ انہیں اس مسودہء قانون کی کن شقوں پر بہت زیادہ اعتراض ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اس میں کوئی بھی ایسی شق نہیں جس کی حمایت کی جاسکے، اس میں ایک طرح سے گمشدگیوں کو ایک قانونی تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ تحفظِ پاکستان بل (پی پی او) جبری گمشدگیوں اور شبہے کی بنیاد پر کسی کو گولی مارنے کا اختیار دینے کے لیے بھی قانونی جواز فراہم کرتا ہے جو ماورائے عدالت ہلاکتوں میں اضافے کا سبب بنے گا۔ کمیشن کی سربراہ کے بقول وہ مانتی ہیں کہ ملک میں اس وقت غیر معمولی حالات ہیں مگر پھر بھی دہشت گردی کے مقدمات نمٹانے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم ہیں، شدت پسندی کے خلاف 1997 کا ایکٹ بھی موجود ہے جس میں کئی مرتبہ ترامیم ہو چکی ہیں، ایسی صورتحال میں نئے قوانین سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ موجودہ قوانین کا ان کی اصل روح کے مطابق شفاف نفاذ ممکن بنایا جائے۔
طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں اندیشہ ہے کہ اس نئے قانون کے ذریعے قوم پرستوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ ملزمان کو زیر حراست رکھنے کی مدت کو تیس دن سے بڑھاکر نوے دن کر دینا اور سب کو پتہ ہے کہ پاکستان میں کس طرح اعتراف جرم کروایا جاتا ہے، تشدد کے ذریعے، زیر حراست رکھنے کی مدت بڑھانے سے اندیشہ ہے کہ تشدد کے ذریعے شواہد حاصل کرنے میں اضافہ ہوگا۔
واضح رہے کہ بلوچ قوم پرست رہنما اختر مینگل پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کے ذریعے بلوچ قوم پرستوں کا استحصال کیا جائے گا۔ آرڈیننس کے نفاذ کے بعد قومی املاک جیسا کہ ریلوے، بجلی یا گیس پائپ لائن وغیرہ پر حملوں کو پاکستان پر حملہ تصور کیا جائے گا اور ملزمان سے اسی حساب سے برتاو کیا جائے گا۔ ایچ آر سی پی کی سربراہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اس بل کو قانونی شکل میں ڈھلنے سے روکنے کے لیے کیا کچھ کرسکتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ اسے روکا تو نہیں جا سکتا مگر یہ ہے کہ اس کے نفاذ کے بعد نظر رکھی جائے کی کہ کہاں کہاں اس کے ذریعے انسانوں کے حقوق پامال کیے جارہے ہیں۔