تحریک طالبان پاکستان کا سینکڑوں جنگجوؤں کو شام بھیجنے کا اعلان
14 جولائی 2013اس بارے میں طالبان عسکریت پسندوں نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اس اقدام کا مقصد القاعدہ تنظیم کی مرکزی لیڈر شپ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید پختہ کرنا ہے۔
عرب ملک شام میں اسد حکومت کے خلاف بغاوت کے آغاز کو دو سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو آیا۔ اس دوران شام غیر ملکی سُنی جنگجوؤں کے لیے مقناطیسی کشش کا حامل بن گیا ہے۔ دنیا بھر سے سنی عسکریت پسند مشرق وسطیٰ کی بحران زدہ ریاست شام جاکر شیعہ حکومت کے خلاف جاری جنگ میں حصہ لے رہے ہیں، جسے وہ مقدس جنگ یا جہاد قرار دیتے ہیں۔
یہ جنگجو عسکریت پسند النصرہ فرنٹ کا ساتھ دیتے ہوئے اُس کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ جبکہ النصرہ کو امریکا القاعدہ کی ایک شاخ قرار دے چُکا ہے۔ یہ جنگجو زیادہ تر قریبی ممالک جیسے کہ لیبیا اور تیونس سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں ممالک عرب بہار کے نتیجے میں ویسی ہی صورتحال سے دوچار ہو چُکے ہیں جیسی اب شام میں پائی جاتی ہے۔
آج اتوار کو پاکستان میں طلبان کے کمانڈروں نے بھی شامی جنگ میں باغیوں کا ساتھ دینے کا کھلے عام اقرار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کے سینکڑوں جنگجو شام بھیجے جا چُکے ہیں جو وہاں اپنے’مجاہدین دوستوں‘ کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔ طالبان کے ایک سینیئر کمانڈر نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،’ جب ہمارے بھائیوں کو ہماری مدد کی ضرورت پیش آئی تو اپنے عرب بھائیوں کے ساتھ ساتھ ہم نے بھی سینکڑوں جنگجو روانہ کر دیے‘۔ طالبان کے اس کمانڈر نے کہا ہے کہ ان کا گروپ جلد ہی شام میں اپنی فتوحات پر مشتمل ویڈیو جاری کرے گا۔
پاکستانی طالبان کے اس بیان نے شام کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے جہاں فری سیرین آرمی اور اسلام پسندوں کے مابین جاری جنگ کی آگ کے شعلے شدت پکڑتے جا رہے ہیں۔ اسلام پسند عناصر کا گروپ گرچہ چھوٹا ہے تاہم یہ بہت موثر طریقے سے باغیوں کے قبضے والے علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لیے ہوئے ہے۔
بحران زدہ عرب ملک شام میں گزشتہ جمعرات کو کشیدگی میں ایک بار پھر غیر معمولی اضافہ اُس وقت دیکھنے میں آیا جب القاعدہ سے قریبی رابطہ رکھنے والے اس عسکریت پسند گروپ نے فری سیرین آرمی کے ایک چوٹی کے کمانڈر کو بندرگاہی شہر اذقیہ میں ایک تنازعہ اُٹھنے پر قتل کر دیا۔ یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں رونما ہوا جب حزب اللہ کے شیعہ جنگجو اور ایران کی پشت پناہی میں صدر اسد کی فورسز نے شام کے میدان جنگ میں کافی مقامات پر قتح حاصل کی ہے۔
پاکستان کے ایک اور طالبان کمانڈر نے نام نہ بتانے کی شرط پر ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ،’ طالبان جنگجوؤں کو شام بھیجنے کا فیصلہ ہمارے عرب دوستوں کی درخواست پر کیا گیا ہے‘۔ روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےاُنہوں نے مزید کہا،’ کیونکہ یہاں ہماری مدد کرنے کے لیے ہمارے عرب بھائی آئے تھے، ان کے متعلقہ ممالک میں ان کی مدد کرنا ہم پر واجب ہے اور یہ ہم نے شام میں کیا ہے‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان نے شام میں اپنے متعدد کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔ ہمارے کچھ اراکین وہاں جاکر جنگ میں حصہ لیتے ہیں اور کچھ عرصے بعد لوٹ آتے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کا گڑھ پشتون نسل کے باغی گروپ کا ٹھکانہ، پاک افغان سرحدی علاقہ ہے۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں ایک عرصے سے طالبان اور القاعدہ کی پبا کی ہوئی شورش اور دہشت گردی کی آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔