بھارتی میڈیا پر شہباز شریف کے خلاف منفی رپورٹنگ
1 ستمبر 2025چین کے شہر تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم کا دو روزہ اجلاس اپنے اختتام کو پہنچا ہے جسے دنیا بھر کے نشریاتی اداروں نے رپورٹ کیا۔ تاہم بھارتی میڈيا کی جانب سے اس کی ہمہ وقت نشریات جاری ہیں جس میں اجلاس کے ساتھ ساتھ پاکستانی وزیر اعظم پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اور اس دوڑ میں کوئی چھوٹے موٹے نہیں بلکہ کافی نامی گرامی میڈیا اداروں نے جلی حروف اور بڑی سرخیوں کے ساتھ ایسی خبریں شائع کیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پیر کی صبح این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر ایک بڑی ہیڈ لائن تھی: "شہباز شریف کو دھتکار دیا گیا؟"
اس سرخی کے تحت مضمون میں یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن ایک ساتھ چل رہے تھے، تو راستے میں کھڑے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کو نظر انداز کر دیا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ بھی لکھا گیا کہ اس سے پہلے سربراہی اجلاس کی پہلی تصویر میں "مودی کو شہباز شریف سے کافی دور کھڑے دیکھا گیا۔"
اس میں لکھا گيا، "تیانجن سے لی گئی تصاویر اور ویڈیوز میں تین ہیوی ویٹ لیڈران (چینی صدر شی جن پنگ، پوٹن اور مودی) کے درمیان واضح ہم آہنگی دکھائی دی، جب کئی عالمی رہنما انہیں بغور دیکھ رہے تھے۔ جب وزیر اعظم مودی اجلاس سے چند منٹ قبل ایک غیر رسمی بات چیت میں مصروف تھے، تو اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کو "پریشان کن" تاثرات کے ساتھ دیکھا گیا۔"
بھارت کے معروف میڈيا ادارہ 'انڈیا ٹوڈے' کی ایک سرخی تھی، "شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں وزیر اعظم مودی، پوٹن، شی جن پنگ کی دوستی؛ شہباز شریف نظر انداز۔"
اس سرخی میں لکھا گیا، "وزیر اعظم نریندر مودی، روسی صدر پوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں ایک ساتھ پہنچے، جہاں انہیں مصافحہ کرتے اور خوش کن انداز میں گفتگو کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ ایک موقع پر مودی اور پوٹن شہباز شریف کے پیچھے سے گزرے جب وہ سامنے کی طرف دیکھ رہے تھے، ایسا لگتا تھا کہ تقریب میں انہیں مکمل نظر انداز کر دیا گیا ہو۔"
اخبار ہندوستان ٹائمز کی ایک سرخی یہ تھی، "مایوس" پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں پوٹن سے ایسا عجیب مصافحہ کیا کہ انہیں ٹرول کیا گیا۔
اخبار لکھتا ہے، "سوشل میڈیا صارفین نے شریف کو اس وقت ٹرول کرنا شروع کیا، جب سربراہی اجلاس کا ایک مختصر ویڈیو کلپ وائرل ہو گیا، جس میں وزیر اعظم شریف بظاہر صدر پوٹن سے مصافحہ کرنے کے لیے دوڑتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔"
اخبار مزید لکھتا ہے کہ جب پوٹن اور شی جن پنگ فوٹو کے بعد ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، تو وزیر اعظم شریف پیچھے سے آتے دکھائی دیے اور جلدی سے پوٹن کا ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھے۔ "صارفین نے اس کا بات بھی مذاق اڑایا کہ چینی صدر نے شریف کے اس رویے کو دیکھا اور منہ موڑتے نظر آئے۔"
لیکن کیا پاکستانی وزیر اعظم واقعی نظر انداز ہوئے؟
ایک بات جو ایسے اجلاسوں میں طے ہوتی ہے وہ یہ کہ کس شخصیت کی نشت کہاں ہوگی اور انہیں کہاں کھڑے ہونا ہے۔ بھارتی میڈیا پر دکھائے جانے والی ویڈیوز تصویر کا دوسرا رخ پیش نہیں کرتیں۔ اجلاس کے دوران پوٹن کے ساتھ شہباز شریف کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں دونوں بہت ہی خوشگوار ماحول میں ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے نظر آرہے ہیں۔
اسی طرح جب یہ کہا جا رہا ہے کہ شریف کو نظر انداز کر دیا گیا، تو دراصل کہانی بالکل مختلف ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب مودی اور پوٹن ایک ساتھ جا رہے ہیں تو شریف کی جانب سے مودی کو دانستہ نظر انداز کیا گیا۔
این ڈي ٹی وی نے "دھتکار" والے اپنے طویل مضمون کے آخر میں لکھا کہ بھارت کے ساتھ فوجی تنازعے کے بعد اسلام آباد واشنگٹن کے ساتھ ہم آہنگ ہو رہا ہے اور اس نے نئی دہلی کے ساتھ جنگ بندی کا کریڈٹ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دیا ہے۔
حیران کن بات ہے کہ اس میں اس بات کا ذکر تک نہیں ہے کہ خود صدر ٹرمپ نے کئی بار یہ بات دہرائی ہے کہ پاک بھارت کے مابین جنگ بندی انہوں نے ہی کروائی تھی۔
بھارتی میڈيا کی جانب سے ایسی سنسنی خیز خبروں کی فہرست طویل ہے تاہم قومی سطح کے ایسے نامور اداروں سے اس قسم کی منفی پروپیگنڈے اور دروغ گوئی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ یہ ادارے نہ صرف عوامی سطح پر مقبول ہیں بلکہ ایک بڑا طبقہ ان کی خبروں پر یقین بھی کرتا ہے۔