کشمیر: جماعت اسلامی کے تمام اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ
15 جون 2022بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے 14 جون منگل کے روز کالعدم تنظیم جماعت اسلامی سے الحاق شدہ ’فلاح عام‘ ٹرسٹ کے زیراہتمام چلنے والے تمام اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں بند کرنے کا حکم دیا۔
ضلعی حکام کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ آئندہ 15 روز کے اندر ایسے تمام اداروں کو سیل کر دیں۔
کشمیر میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام تعلیمی اداروں میں ہزاروں طلبا تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اساتذہ کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ حکومت نے ایسے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے تمام طالبات سے اب سرکاری اسکولوں میں داخلہ لینے کا حکم دیا ہے۔
انتظامیہ کا کیا کہنا ہے؟
گزشتہ روز کشمیر کے محکمہ تعلیم کے ذریعے اس سلسلے میں چار صفحات پر مشتمل ایک حکم نامہ جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ اضلاع کے چیف ایجوکیشن افسر ضلعی انتظامیہ کی مشاورت سے 15 دن کے اندر ایسے اداروں کو سیل کریں۔
اس حکم کے مطابق، ’’ان ممنوعہ اداروں میں پڑھنے والے تمام طلبہ موجودہ سیشن کے لیے قریب کے سرکاری اسکولوں میں خود کو داخل کرائیں۔‘‘ حکام نے طلباء کے داخلے میں سہولت فراہم کرنے کی بھی ہدایات جاری کی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بعض حکومتی ایجنسیوں نے اپنی رپورٹ میں ان اسکولوں کو بند کرنے کی سفارش کی تھی اس کے بعد ہی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق ایسے اسکولوں میں تعلیم سے، ’’کم عمری میں ہی بچے بنیاد پرست‘‘ بن جاتے ہیں اور پھر آگے چل کر سخت علیحدگی پسند نظریات کے حامل ہو تے ہیں۔
جماعت اسلامی پر پابندی
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد ہے تاہم ملک کے دیگر حصوں میں یہ تنظیم ممنوعہ نہیں ہے۔ خطہ کشمیر میں جماعت کے سابق سکریٹری زاہد علی کا کہنا ہے کہ پابندی کے بعد سے ہی جماعت کے تمام اراکین جیلوں میں تھے جن میں بہت سے باہر آ گئے ہیں تاہم، اب بھی بہت سے قید میں ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ انتظامیہ نے اسکولوں سے متعلق جو احکامات جاری کیے ہیں وہ عدالتی ہدایات کے بعد آئے ہیں۔ ’’کشمیر میں جماعت سے وابستہ چند اسکول ہی باقی بچے تھے اور وہ بھی تقریبا بند پڑے تھے، جس سے متعلق ایک کافی پرانہ کیس زیر سماعت تھا۔ اسی پر سماعت کے بعد عدالت نے انہیں بند کرنے کا فیصلہ سنایا تو حکومت نے نئی ہدایات جاری کیں۔‘‘
زاہد علی کے مطابق جموں و کشمیر جماعت اسلامی پر پابندی عائد ہے اور اس کی تمام سرگرمیاں پہلے سے ہی معطل ہیں، ’’تو اسکول کیسے چل سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جماعت پر پابندی کے خلاف بھی ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے، تاہم ’’عدالتیں اس پر سماعت نہیں کر رہی ہیں۔ ہم اس میں کامیاب ہوں گے۔‘‘
اس سے قبل 1990ء میں بھی جب اس وقت کی گورنر انتظامیہ نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تھی تو اس کے زیر اہتمام اسکولوں پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔ تاہم بعد میں عدالت نے یہ پابندی ختم کر دی تھی۔