بھارت پر عالمی اقتصادی بحران کے سائے گہرے ہوتے ہوئے
25 جون 2012اقتصادی ریٹنگز کرنے والی تنظیموں ’فچ‘ اور ’اسٹینڈرڈ اینڈ پوئرز‘ نے بھارتی معیشت کو ’مستحکم‘ سے ’منفی‘ کی کیٹگری میں ڈال دیا ہے جس کی وجہ اس نے بھارت کی سست رو معاشی ترقی اور معاشی پالیسی کا متحرک نہ ہونا بتائی ہے۔
ماہرین کے مطابق بھارت کی معاشی ترقی میں سست روی کی وجہ بھارتی حکومت کی جانب سے نئی معاشی پالیسیاں درست انداز سے مرتب کرنے اور ان پر عمل کرنے کا فقدان ہے۔
مثال کے طور پر ،کئی برس تک غور کرنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے گزشتہ برس بالآخر چار سو پچاس بلین ڈالر کے بھارتی سپر مارکیٹ سیکٹر کو بیرونی سرمائے کے لیے کھول دیا تھا۔ تاہم وزیر اعظم من موہن سنگھ کو اندرون ملک سیاسی بحران کے خوف سے اپنے فیصلے کو واپس لینا پڑا۔ ان کے اس فیصلے سے ان کی حکومت خطرے میں پڑتی دکھائی دی۔ اپوزیشن نے سپر مارکیٹ سیکٹر کو بیرونی سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے کی شدید مخالفت کی تھی۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق بھارتی حکومت کی جانب سے سپر مارکیٹ کے سیکٹر کو بیرونی سرمائے کے لیے کھولے جانے کے فیصلے کے نتیجے میں ایک انتہائی فرسودہ سیکٹر جدید بنایا جا سکتا تھا۔ تاہم ماہرین اس فیصلے کی وجہ سے بھارت کے سرمایہ داروں کو نقصان پہنچنے کے امکانات سے بھی واقف ہیں۔ سپر مارکیٹ سیکٹر کو بیرونی سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے کا مطلب بھارت میں سپر مارکیٹ سیکٹر سے وابستہ افراد کے نقصان کی شکل میں نکل سکتا ہے۔
وزیر اعظم من موہن سنگھ تاہم کہہ رہے ہیں کہ وہ اس فیصلے پر عمل کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ اس سے بھارتی معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔ امکان ہے کہ من موہن سنگھ انیس جولائی کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد اس فیصلے پر عمل درآمد کر سکتے ہیں۔
اسی طرح فیول سبسڈی کا معاملہ بھی بھارتی معیشت دانوں کی سست روی کی مثال ہے۔ ہر برس بھارتی حکومت سرکار کی زیر سرپرستی چلنے والی تیل کمپنیوں کو مارکیٹ سے کم قیمت پر تیل بیچنے کے لیے معاوضہ اداکرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سے بھارتی معیشت پر سخت بوجھ پڑتا ہے۔ تاہم اس سے بھارت کے عام لوگوں کو فائدہ ضرور پہنچتا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی حکومت کس طرح عوام کی فلاح اور معاشی ترقی کے بین الاقوامی تقاضوں کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔
(shs / km (Reuters