بھارت میں اب ایک فوجی کو بھی لنچ کر دیا گیا
27 دسمبر 2022بھارتی ریاست گجرات کے ضلع نڈیاڈ میں پولیس نے فوج کے ایک جوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دینے کے الزام میں سات افراد کو گرفتار کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق فوجی جوان اپنی بیٹی کی بعض عریاں تصاویر پوسٹ کرنے سے ناراض تھے اور اسی پر اعتراض کیا تھا۔ تاہم مقامی افراد نے انہیں اتنا مارا کی ان کی موت ہو گئی۔
بھارت: مدھیا پردیش میں ’گائے کابینہ‘ تشکیل
پولیس کا کہنا ہے کہ بارڈر سکیورٹی فورسز (بی ایس ایف) سے تعلق رکھنے والے جوان میلجی بھائی واگھیلا اپنی بچی کی بعض قابل اعتراض تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے خلاف اس لڑکے کے گھر گئے تھے، جس نے مبینہ طور پر اسکول کی طالبہ کی بعض قابل اعتراض تصویریں شیئر کی تھیں۔
امریکہ، ’لنچنگ‘ کو نفرت انگیز جرم قرار دینے کے قانون کی منظوری
وہاں لڑکے کے اہل خانہ سے توتو میں میں جھگڑے میں بدل گئی اور گھر والوں نے واگھیلا سے مار پیٹ شروع کر دی۔ اس طرح انہیں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق وہ لڑکا بی ایس ایف اہلکار کی نو عمر بیٹی کا اسکول کا ساتھی ہے اور دونوں میں آپس میں دوستی بھی تھی۔
’گائے کا تحفظ‘: دو مسلمانوں کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا
سینیئر پولیس حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس ہجومی تشدد میں ملوث سات افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
بھارت میں مسلمانوں پر حملوں کے خلاف بڑے مظاہرے
بھارت میں ہجومی تشدد کا چلن
گزشتہ کئی برسوں سے، جب سے بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے، سماج کے مختلف طبقوں کے درمیان پائی جانے والی نفرت اور مذہبی عداوت کے سبب اس طرح کے ہجومی تشدد کے واقعات میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
موجودہ بھارت میں گاؤ کشی یا گائیوں کی خرید و فروخت کے الزامات کے تحت سخت گیر اور انتہا پسند ہندو تنظیمیں خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتی رہی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں وحشیانہ ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی سینکڑوں وارداتیں پیش آ چکی ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ، غیر سرکاری تنظیموں اور کارکنان ماب لنچنگ کی روک تھام کے لیے خصوصی قوانین وضع کرنے کا بھی مطالبہ کرتے رہے ہیں، تاہم حکومت نے اس پر بھی توجہ نہیں دی اور اب حالت یہ ہے کہ اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔
اس معاملے پر پارلیمان میں بھی کئی بار بحث ہو چکی ہے اور اپوزیشن نے لنچنگ سے متعلق ہلاکتوں کا ڈیٹا فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے، تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ایسے کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں۔
متعدد آزاد رپورٹوں کے مطابق بھارت میں نریندر مودی کی پہلی حکومت کے بعد ہی ہجومی تشدد کی وارداتوں میں زبردست اضافہ شروع ہوا تھا۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے اس اضافے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے والے قصورواروں یا ملزمان کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی اور عدالتوں میں کم زور پیروی کی وجہ سے وہ عموماً بری ہو جاتے ہیں۔
کئی بار تو تھانوں میں پولیس ایسے معاملات کی ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی، جس سے جرم کی قانونی سزا کا تعین ہی محال ہو جاتا ہے۔
اس قسم کے ہجومی تشدد کا ایک انتہائی گھناؤنا اور غیر انسانی پہلو یہ بھی ہے کہ تشدد پر آمادہ ہجوم میں سے کچھ افراد ایسے تشدد کی مکمل ویڈیو بناتے ہیں اور پھر اسے سوشل میڈیا کے ذریعے پورے ملک میں پھیلایا جاتا ہے۔