بھارت: لال قلعے پر بہادر شاہ ظفر کے وارث کا دعویٰ مسترد
6 مئی 2025سترہویں صدی میں مغلوں کی تعمیر کردہ دہلی کے تاریخی لال قلعے پر آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر دوم کے پوتے کی بیوہ سلطانہ بیگم کے دعوے کو پیر کے روزمسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے پوچھا کہ "صرف لال قلعہ ہی کیوں؟ فتح پور سیکری اور تاج محل کیوں نہیں؟" یہ دونوں عمارتیں بالترتیب 16ویں صدی کے آخر میں اکبر نے اور 17ویں صدی میں شاہ جہاں نے بنوائی تھیں۔
جسٹس کھنہ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا،"کیا آپ اس پر بحث کرنا چاہتی ہیں۔" اس کے ساتھ ہی انہوں نے درخواست مسترد کردی۔
سلطانہ بیگم، جو مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتہ کے قریب رہتی ہیں، نے لال قلعہ پر اپنا دعویٰ اس بنیاد پر کیا تھا کہ وہ اصل مالکان، یعنی مغل بادشاہوں کی براہ راست اولاد ہیں۔
لال قلعہ کو 1857 میں پہلی جنگ آزادی کے بعد برطانوی انتظامیہ نے مغلوں سے چھین لیا تھا، جس کے بعد بہادر شاہ ظفر، جنہوں نے نوآبادیاتی حکمرانوں کے خلاف پہلی بغاوتوں کی حمایت کی تھی، کو جلاوطن کر دیا گیا اور ان کی زمینیں اور جائیدادیں ضبط کر لی گئیں۔
سلطانہ بیگم نے اپنا دعویٰ ترک کرنے کے لیے متبادل کے طور پر حکومت سے مالی امداد کا مطالبہ کیا۔
سلطانہ پہلے بھی عدالت جا چکی ہیں
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ سلطانہ بیگم نے لال قلعہ پر اپنا دعویٰ کیا تھا۔ انہوں نے سن دو ہزار اکیس میں بھی اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
سلطانہ بیگم نےاس وقت دلیل دی تھی کہ 1960 میں حکومت ہند نے ان کے (اب متوفی) شوہر بیدار بخت کے بہادر شاہ ظفر کی اولاد اور وارث ہونے کے دعوے کی تصدیق کر دی تھی۔ اس کے بعد حکومت نے انہیں پنشن دینا شروع کیا جو 1980 میں بیدار بخت کی موت کے بعد سلطانہ بیگم کو منتقل کر دی گئی۔ انہوں نے اپنی درخواست میں یہ دلیل دی تھی، یہ پنشن ان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔
دہلی ہائی کورٹ میں داخل اپنی عرضی میں سلطانہ بیگم نے الزام لگایا تھا کہ حکومت نے لال قلعہ پر 'غیر قانونی' قبضہ کر لیا ہے اور اس جائیداد اور تاریخی اہمیت کے مطابق مناسب معاوضہ فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، جو کہ بھارتی آئین میں شہریوں کو دیے گئے حقوق کے خلاف ہے۔
تاہم دہلی ہائی کورٹ نے اس دلیل اور درخواست کو رد کر دیا تھا۔
سلطانہ بیگم نے تین سال بعد ایک بار پھراس فیصلے کے خلاف اپیل کی، اور اسے دوبارہ مسترد کر دیا گیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اپیل اصل فیصلے کے بعد بہت تاخیر سے کی گئی تھی۔ حالانکہ سلطانہ کا کہنا تھا کہ ان کی ناخواندگی اور خرابیء صحت کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر سلطانہ بیگم کا ردعمل
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سلطانہ بیگم نے کہا، "مجھے سپریم کورٹ سے جو امید تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہے۔ میری آخری امید اب مودی حکومت سے ہے"۔
سلطانہ نے تاہم کہا کہ انہوں نے کبھی لال قلعہ نہیں مانگا۔ انہوں نے کہا، "ہم نے لال قلعہ یا فتح پور سیکری نہیں مانگی، ہم نے صرف یہ کہا کہ بادشاہوں اور شہنشاہوں کے محلات اور گھر ہوتے ہیں، پھر بہادر شاہ ظفر کا گھر کہاں ہے؟ ہم نے صرف ان کی صحیح رہائش مانگی تھی۔"
سلطانہ بیگم نے جذباتی انداز میں کہا کہ بہادر شاہ ظفر نے ملک کے لیے سب کچھ قربان کر دیا، لیکن ان کی تمام جائیدادیں چھین لی گئیں۔
اٹھارہ سو ستاون میں پہلی جنگ آزادی کے بعد، بہادر شاہ ظفر کو رنگون جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ جہاں 1862 میں ان کی وفات ہو گئی۔
'پاکستان کی پیش کش کو ٹھکرا دیا'
سلطانہ بیگم نے کہا، "کیا بہادر شاہ ظفر کی وفاداری رائیگاں گئی؟ جنہوں نے اپنا تاج قوم کے لیے قربان کر دیا، ان کے پاس جو کچھ تھا وہ انگریزوں نے ان سے چھین لیا، آج غدار خوشحال ہو رہے ہیں، جبکہ ظفر کی اولادیں مایوسی میں بھٹک رہی ہیں۔"
سلطانہ بیگم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہیں پاکستان سے وہاں آباد ہونے کی دعوت ملی تھی لیکن انہوں نے اپنے ملک سے غداری کرنے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے کہا، "میں 1981 میں بھارت چھوڑ سکتی تھی جب امریکہ اور پیرس کے لوگوں نے مجھے وہاں لے جانے کی پیشکش کی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہاں (بھارت میں) میری کوئی عزت نہیں ہے، اور میرے بچے بیرون ملک بہتر زندگی گزاریں گے۔ ہمیں پاکستان کی طرف سے پیشکش بھی ہوئی، لیکن ہم نے انکار کر دیا... ہم بہادر شاہ ظفر کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دیں گے۔"
سلطانہ نے زور دے کر کہا کہ میر جعفر جیسے غداروں کو انعام دیا گیا، لیکن ظفر کی اولاد "بُری طرح دُکھ" جھیل رہی ہے۔ انہوں نے کہا، "تاریخ بتاتی ہے کہ میر جعفر جیسے غداروں کو کیسے فائدہ پہنچا، جب کہ ہم کو، جو اپنی قوم کے ساتھ وفادار رہے، مصائب کا سامنا کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔"
سلطانہ بیگم کو اب مودی حکومت سے امید ہے کہ وہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالے گی۔ انہوں نے کہا، "ہم نے ابھی تک کسی سے رابطہ نہیں کیا ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ اگر کچھ نہ ہوا تو ہم حکومت کو درخواست دیں گے۔"