بھارت اور چین کی باہمی کشیدگی کم کرنے کی کوشش
19 اگست 2025چینی وزیرِ خارجہ وانگ ژی، جو پیر کو بھارت پہنچے، وزیر اعظم نریندر مودی اور دیگر رہنماؤں بشمول قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے آج منگل کو ملاقات کر رہے ہیں۔ توقع ہے کہ وہ سرحد پر تعینات فوجیوں کی تعداد میں کمی اور کچھ تجارتی سرگرمیوں کی بحالی پر تبادلہ خیال کریں گے۔
پیر کو انہوں نے اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کے ساتھ بات چیت کی اور کہا کہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کو مخالف یا خطرے کے طور دیکھنے کی بجائے شراکت دار اور مواقع کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ ان ملاقاتوں کو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک کے درمیان برسوں سے جاری کشیدگی کے کم ہونے کی ایک علامت بتایا جا رہا ہے۔
تعلقات کی بحالی کی یہ کوشش ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر بھاری ٹیرفس عائد کر دیے ہیں۔ بھارت، جو ایشیا میں چین کے اثر و رسوخ کا توڑ سمجھا جاتا ہے، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ ’’کواڈ‘‘ سکیورٹی اتحاد کا حصہ ہے۔
چینی وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کی اہمیت
بھارت اور چین کے درمیان دہائیوں پرانا سرحدی تنازع ہے۔ اس نے 2020 میں لداخ کے علاقے میں فوجیوں کے درمیان مہلک جھڑپ کے بعد شدت اختیار کرلی۔ تعلقات میں سرد مہری نے تجارت، سفارت کاری اور فضائی سفر کو متاثر کیا۔ دونوں ملکوں نے سرحدی علاقوں میں ہزاروں سکیورٹی فورسز تعینات کر دیں۔
تاہم حالیہ عرصے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ گزشتہ سال، بھارت اور چین نے سرحدی گشت کے معاہدے پر اتفاق کیا اور کچھ سرحدی علاقوں سے اضافی فوجیں ہٹا لیں۔ حالانکہ دونوں ممالک سڑکوں اور ریلوے نیٹ ورکس کی تعمیر کے ذریعے اپنی سرحدوں کو مضبوط بناتے جا رہے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں دونوں ممالک نے سرکاری دوروں میں اضافہ کیا ہے اور کچھ تجارتی پابندیوں میں نرمی، شہریوں کی آمد و رفت اور کاروباری افراد کے ویزوں پر بات کی ہے۔ جون میں، بیجنگ نے بھارتی ہندو زائرین کو چین میں مقامات پر جانے کی اجازت دی۔ دونوں فریق براہِ راست پروازوں کی بحالی پر بھی کام کر رہے ہیں۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے گزشتہ ہفتے، کہا کہ بھارت اور چین 3,488 کلومیٹر طویل سرحد پر تین مقامات سے تجارت دوبارہ شروع کرنے پر بات چیت کر رہے ہیں۔
نئی دہلی میں قائم تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے رکن اور اسٹریٹیجک امور کے ماہر منوج جوشی نے کہا کہ تعلقات اب بھی غیر یقینی سطح پر معمول پر لانے کے مرحلے میں ہیں۔
جوشی، جو بھارت کی قومی سلامتی کونسل کے مشاورتی بورڈ کے رکن بھی رہ چکے ہیں، کا کہنا تھا کہ ''دونوں ممالک کے درمیان سرحدی مسئلے کو حل کرنے کے لیے اعلیٰ ترین سیاسی سطح پر سمجھوتے کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک ''ابھی بھی سرحدی تنازع اور اس سے جڑے مسائل پر ایک دوسرے کو سمجھنے کی بجائے اپنی اپنی بات دہرا رہے ہیں۔‘‘
چینی وزیرِ خارجہ کا بیان
چینی وزیرِ خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ چین اور بھارت کو ''درست اسٹریٹجک سمجھ بوجھ‘‘ پیدا کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کو شراکت دار کے طور پر دیکھنا چاہیے، نہ کہ مخالف کے طور پر۔
چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان ہر سطح پر تبادلے اور مذاکرات بتدریج بحال ہو رہے ہیں اور تعلقات دوبارہ تعاون کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق وانگ ژی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں ممالک بطور بڑی طاقتیں دیگر ترقی پذیر ملکوں کے لیے مثال قائم کریں تاکہ اتحاد اور خود کو مضبوط بنا سکیں۔
انہوں نے کہا، ہر سطح پر مکالمے کی بحالی اور سرحدی علاقوں میں امن و سکون کے قیام اس بات کا ثبوت ہیں کہ باہمی تعاون کے تعلقات کی واپسی کے مثبت رجحان ہیں۔
بھارتی وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے کہا کہ بھارت اور چین اب آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ہمارے تعلقات نے ایک مشکل دور دیکھا ہے، مگر دونوں ممالک اب آگے بڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اختلافات تنازعے میں اور مسابقت تصادم میں نہیں بدلنی چاہیے۔‘‘
بھارتی میڈیا کے مطابق، مودی اس ماہ چین کا دورہ کر سکتے ہیں، جو 2018 کے بعد ان کا پہلا دورہ ہو گا۔ جے شنکر نے کہا کہ اکتوبر میں مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی روس میں پانچ سال بعد پہلی ملاقات کے بعد تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
ادارت: کشور مصطفیٰ