بھارت اور پاکستان میں جنگ بندی برقرار، کشیدگی کے بعد سکوت
وقت اشاعت 10 مئی 2025آخری اپ ڈیٹ 11 مئی 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- پاکستان اور بھارت کے مابین سیزفائر کی خلاف ورزیوں کے ابتدائی الزامات کے باوجود جنگ بندی برقرار
- پاپائے روم لیو چار دہم کا بھارت پاکستان جنگ بندی کا خیر مقدم
- جنگ بندی کے لیے امریکی حمایت: پاکستان کی طرف سے خیر مقدم
- ٹرمپ کا ’ہزار سال‘ پرانا مسئلہ کشمیر حل کرانے کا عزم
- بھارتی زیر انتظام کشمیر میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اطلاعات
- پاک بھارت جنگ بندی پر پاکستانی عوام خوش
- پاکستان کے ساتھ فائرنگ روکنے پر مفاہمت طے پا گئی ہے، بھارتی وزیر خارجہ
- پاکستان کی فضائی حدود تمام پروازوں کے لیے کھول دی گئی، ایوی ایشن اتھارٹی
پاکستان اور بھارت کے مابین سیزفائر کی خلاف ورزیوں کے ابتدائی الزامات کے باوجود جنگ بندی برقرار
بھارت اور پاکستان کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد آج گیارہ مئی بروز اتوار دوطرفہ جنگ بندی کی فضا قائم رہی، حالانکہ سیزفائر کے بعد کے ابتدائی گھنٹوں میں جوہری طاقت کے حامل دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے تھے۔
دونوں پڑوسیوں کے مابین چار روز تک میزائلوں، ڈرون حملوں اور توپ خانے سے شدید گولہ باری کے بعد ہفتے کے روز اچانک جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ اس کشیدگی کے دوران دونوں جانب سے کم از کم 60 افراد ہلاک ہوئے اور ہزاروں افراد کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر بھی مجبور ہونا پڑا۔ یہ 1999ء میں کارگل کی لڑائی کے بعد سے اب تک دونوں ممالک کے مابین بدترین مسلح تصادم قرار دیا گیا۔
ہفتے کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک بیان میں پاکستان اور بھارت کے مابین ’’فوری اور مکمل‘‘ جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلہ ’’امریکی ثالثی میں طویل مذاکراتی شب‘‘ کے بعد سامنے آیا۔
اتوار کی صبح بھارت کے سیکرٹری خارجہ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی جانب سے ’’جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں‘‘ کے بعد بھارت نے جوابی کارروائی کی۔ دوسری جانب پاکستان نے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی پر قائم ہے اور بھارتی خلاف ورزیوں کا ’’ذمہ داری اور ضبط‘‘ کے ساتھ جواب دے رہا ہے۔
کنٹرول لائن کے قریب بھارتی علاقے میں واقع کئی دیہات کے مکینوں نے بتایا کہ جنگ بندی کے اعلان کے چند گھنٹے بعد پاکستان کی جانب سے شدید گولہ باری دوبارہ شروع ہو گئی تھی۔ پونچھ کے گاؤں کوٹ میرا کے رہائشی بیری رام کا چار کمروں پر مشتمل مکان شیلنگ سے ملبے کا ڈھیر بن گیا، جب کہ ان کی تین بھینسیں بھی ہلاک ہو گئیں۔ بیری رام کا کہنا تھا، ’’سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔‘‘
پاک بھارت جنگ بندی پر پاکستانی اخبارات کے اداریے
پاکستان کے بیشتر اخبارات نے اپنے اداریوں میں حالیہ پاک بھارت جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے تاہم کچھ اخبارات کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں میں پائیدار امن کے لیےمسئلہ کشمیر سمیت باہمی تنازعات کا حل ضروری ہے۔
روزنامہ ڈان نے ’’آخرکار جنگ رک گئی‘‘ کے عنوان سے اپنے اداریے میں لکھا کہ آنے والے دن فیصلہ کریں گے کہ آیا جنگ بندی برقرار رہتی ہے یا نہیں۔ اخبار کے مطابق اگر بھارت پہلگام حملے پر سفارتی طریقے سے بات کرتا تو تشدد سے بچا جا سکتا تھا۔ اخبار نے زور دیا کہ پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کے مستقبل کے بارے میں واضح مؤقف اپنانا چاہیے، کیونکہ یہ معاہدہ ملک کی معیشت، خوراک کی سلامتی، اور پانی کی ضروریات کے لیے نہایت اہم ہے۔
اخبار نے مزید لکھا کہ اگرچہ عالمی برادری نے تنازعے کو ایک بڑی تباہی بننے سے روکنے میں کردار ادا کیا، لیکن یہ غیر حقیقی توقع ہو گی کہ وہ دونوں ممالک کو امن کے راستے پر لے جائیں۔ غیر ملکی دوست سازگار ماحول فراہم کر سکتے ہیں، مگر امن کی منزل تک پہنچنے کے لیے اصل محنت اسلام آباد اور نئی دہلی کو خود کرنی ہو گی۔
ایکسپریس ٹریبیون نے اپنے ادارئیے میں لکھا کہ محدود جنگ ایٹمی تصادم میں بدل سکتی تھی لیکن امریکا کی ثالثی نے بڑی تباہی کو ٹال دیا۔ اخبار نے پاکستان کی عسکری، سفارتی اور اخلاقی کامیابی کو نمایاں کرتے ہوئے کہا کہ اب باقاعدہ مذاکرات سے قبل پاکستان کو اپنے داخلی اور خارجی ایجنڈے پر ہوم ورک کرنا چاہیے۔معیشت کو بہتر بنانا چاہیے اور سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے۔ اخبار کے مطابق امریکہ کی ثالثی کے ذریعے ہونے والی جنگ بندی بھارت کے لیے ایک بڑی پسپائی ہے، کیونکہ اسے نہ صرف دو طرفہ امور میں تیسرے فریق کی مداخلت کو تسلیم کرنا پڑا، بلکہ مختلف ایشوز، خاص طور پر مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے آغاز پر بھی رضامندی ظاہر کرنی پڑی، جس سے بھارت ہمیشہ پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگا کر راہِ فرار اختیار کرتا رہا ہے۔
انگریزی اخبار دی نیوز نے لکھا کہ اگر پاکستان طاقت سے جواب نہ دیتا تو بھارت جنگ بندی پر آمادہ نہ ہوتا۔ اخبار نے بھارتی زبانی یقین دہانیوں کو ناکافی قرار دے کر ایک باقاعدہ تحریری فریم ورک کی ضرورت پر زور دیا، جس سے مستقبل میں بھارت کی طرف سے پاکستان کی خودمختاری کا تحفظ ممکن ہو۔
روزنامہ جنگ کے مطابق پاکستان کو آئندہ مذاکرات میں سندھ طاس معاہدے کی دائمی پابندی، کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فوری استصواب رائے نیز بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سمیت پاکستان میں بھارتی ’دہشت گردی‘ کے مکمل خاتمے کی شرائط پر زور دینا چاہیے۔
دی نیشن نے خبردار کیا کہ کشمیر اور سندھ طاس معاہدے کے منصفانہ حل تک پاک بھارت امن ایک سراب رہے گا۔ روزنامہ دنیا نے جنگ بندی کو مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کردار ادا کرے۔
جنگ بندی کے لیے امریکی حمایت: پاکستان کی طرف سے خیر مقدم
پاکستانی وزارت خارجہ نے پاک بھارت تعلقات سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں کشیدگی کے خاتمے اور استحکام کے لیے امریکہ اور دیگر دوست ممالک کا کردار قابل تحسین ہے۔
اسلام آباد میں وزارت خارجہ نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا، ’’ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بندی کے معاہدے میں امریکہ سمیت دیگر دوست ممالک کے تعمیری کردار کو سراہتے ہیں۔ یہ پیشرفت کشیدگی میں کمی اور علاقائی استحکام کی جانب ایک اہم قدم ہے۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا، ’’ہم صدر ٹرمپ کی اس خواہش کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ وہ مسئلہ جموں و کشمیر کے حل کی کوششوں میں معاون بننے کے لیے تیار ہیں۔یہ ایک دیرینہ تنازع ہے، جو جنوبی ایشیا اور اس خطے سے باہر امن و سلامتی پر سنگین اثرات مرتب کرتا ہے۔‘‘
وزارت خارجہ نے کہا کہ پاکستان امریکہ اور عالمی برادری کے ساتھ روابط جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے اور تجارت اور سرمایہ کاری جیسے شعبوں میں امریکہ کے ساتھ شراکت داری کا خواہاں ہے۔
بھارتی وزیر اعظم کی صدارت میں اعلیٰ سطحی اجلاس، جنگ بندی پر عمل جاری
پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کے نفاذ کے ایک روز بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کے روز ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی، جس میں سکیورٹی اور خارجہ پالیسی سے متعلق اہم امور پر مشاورت کی گئی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اجلاس میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور فوجی قیادت کے سینیئر حکام شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں جنگ بندی کے بعد کی صورتحال اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا۔
واضح رہے کہ ہفتے کے روز دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے، تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اچانک جنگ بندی کے اعلان سے قبل جس نوعیت کی کشیدگی دیکھی گئی تھی، صورت حال میں ویسی کوئی شدت تاحال دوبارہ دیکھنے میں نہیں آئی۔
ٹرمپ کا پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کا ’ہزار سال‘ پرانا مسئلہ حل کرانے کا عزم
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت اور پاکستان کے مابین حالیہ کشیدگی میں کمی کے لیے دونوں ملکوں کی قیادت کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے شوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اپنے ایک بیان میں کہا، ’’مجھے بھارت اور پاکستان کی مضبوط اور غیر متزلزل قیادت پر فخر ہے کہ انہوں نے اتنی ہمت، دانائی اور حوصلے کا مظاہرہ کیا کہ وہ یہ مکمل طور پر جان اور سمجھ سکے کہ اب وقت آ چکا ہے کہ موجودہ جارحیت کو روکا جائے۔‘‘
ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک نے ایک ممکنہ تباہ کن صورتحال کو روک کر لاکھوں معصوم جانوں کو بچایا۔ امریکی صدر نے کہا، ’’اگر یہ صورتحال جاری رہتی تو بے شمار جانوں کا ضیاع اور بڑے پیمانے پر تباہی ہو سکتے تھے۔‘‘
امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کو اس تاریخی فیصلے تک دونوں ممالک کو پہنچانے میں مدد دینے پر فخر ہے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ امریکہ بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ تجارتی تعلقات میں نمایاں اضافہ کرے گا۔
صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ کیا ’ہزار سال‘ بعد اس دیرینہ مسئلے کا کوئی پائیدار حل نکالا جا سکتا ہے۔‘‘
امریکی صدر نے اپنے بیان کے آخر میں دونوں ممالک کی قیادت کو ’’شاندار کارکردگی‘‘ پر خراج تحسین پیش کیا اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا۔
شہباز شریف کی طرف سے قوم کو ’فتح‘ کی مبارکباد
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے ہفتے کی شام قوم کو بھارت پر ’فتح‘ کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے دیرینہ حریف ہمسایہ ملک کے ساتھ بامقصد مذاکرات اور تمام حل طلب مسائل کے حل کی امید ظاہر کی۔
شہباز شریف نے قوم سے خطاب میں کہا، ’’یہ صرف مسلح افواج کی ہی نہیں بلکہ پوری قوم کی فتح ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی کہ پاکستان کی مسلح افواج اور فضائیہ نے چند گھنٹوں میں بھارتی فوج کو خاموش کرا دیا۔‘‘
شریف نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تمام حل طلب مسائل بشمول آبی وسائل کی تقسیم اور مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کر لیے جائیں گے۔
دوسری طرف بھارت میں بھی ’’فتح‘‘ کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کا کہنا ہے کہ بھارتی فورسز نے پاکستان کے خلاف مؤثر کارروائی کی ہے۔
دونوں ممالک کا اسٹریٹیجک جیت کا دعویٰ ’بری بات نہیں‘
بین الاقوامی تعلقات اور سکیورٹی امور کے ماہر سمیر لالوانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کی طرف سے اپنی اپنی فتح کا دعویٰ کرنا ایک خوش آئند اشارہ ہو سکتا ہے۔
سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ بجٹری اسیسمنٹس سے وابستہ اس سکیورٹی ماہر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ دونوں ممالک کا اس اسٹریٹیجک جیت کا دعویٰ کرنا ’’اتنی بری بات نہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسی شدید عسکری کشیدگی کی صورتحال میں دونوں ممالک کو اپنے اپنے عوام کو یہ باور کرانا پڑتا ہے کہ انہوں نے اپنے اسٹریٹیجک مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔
ان کے بقول ایک دوسرے پر سبقت لے لینے کی کیفیت کے تحت ہی فریق کشیدہ ماحول سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔
لالوانی نے مزید کہا، ’’اگر دونوں فریق اس صورتحال کو قبول کر لیں اور معلومات یا بعض اوقات غلط معلومات کا فائدہ اٹھا کر اپنے حق میں بیانیہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو میرے خیال میں یہ صورتحال میں استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘
لالوانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد فائرنگ کے واقعات کی اطلاعات آنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
سیز فائر کی خلاف ورزی نہیں کی، پاکستانی وزیر خارجہ
پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھارتی الزامات مسترد کر دیے ہیں کہ پاکستانی فورسز آج طے پانے والے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
بھارت نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
بھارتی خارجہ سیکرٹری وکرم مِسری نے ہفتے کی رات صحافیوں کو بتایا، ’’دونوں ممالک کے درمیان فائر بندی کے سلسلے میں طے پانے والے سمجھوتے کی بارہا خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔‘‘ انہوں نے اس تناظر میں پاکستان پر الزام دھرا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستانی فورسز نے کارروائیاں نہ روکیں تو بھارتی فورسز بھی جواب دیں گی۔
سیز فائر کو کامیاب بنانے کے لیے تعاون فراہم کریں گے، چینی وزیر خارجہ
چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ بیجنگ حکومت بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ بندی کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کرتی ہے اور اس عمل میں ’’تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے‘‘۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا کے مطابق وانگ ژی نے یہ بات پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیجنگ کو دونوں ممالک کے ساتھ سرحدیں ہونے کے باعث کسی بھی ممکنہ کشیدگی میں اضافے پر تشویش ہے۔
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اطلاعات
بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ بندی کے اعلان کے محض چند گھنٹے گزرنے کے بعد بھارتی زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں دھماکوں کی آوازیں سنے جانے کی اطلاعات ہیں۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں حیرت اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا’’یہ جنگ بندی کو کیا ہوا؟ سری نگر بھر میں دھماکوں کی آوازیں!!!‘‘
انہوں نے ایک اور پیغام میں لکھا، ’’یہ کوئی جنگ بندی نہیں ہے۔ سری نگر کے وسط میں ایئر ڈیفنس یونٹس فائرنگ کر رہے ہیں۔‘‘ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جموں شہر میں بھی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور آسمان میں میزائل نما اجسام دیکھے گئے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک بھارتی سرکاری ذریعے کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم کرنے کے لیے جنگ بندی پر اتفاق ہوا ہے۔ تازہ واقعات سے اس معاہدے کی نوعیت اور مؤثر ہونے سے متعلق سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
پاکستان میں پہلی بار جنگی ماحول دیکھنے والی ’جنریشن زی‘ سیز فائر پر خوش
پاکستان اور بھارت کے مابین شدید کشیدگی کے دوران پہلی مرتبہ باقاعدہ جنگی ماحول دیکھنے والی پاکستانی نوجوانوں کی ’جنریشن زی‘ اب جہاں جنگ کا خطرہ ٹل جانے پر خوش ہے وہیں اسے یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ حکومت ان کا فیورٹ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس دوبارہ بند تو نہیں کردے گی۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کئی نوجوان طلبہ و طالبات کا کہنا تھا کہ پاک بھارت جنگ بندی سے دباؤ اور غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ ہوگیا، لیکن انہیں اب اس بات کا ڈر ہے کہ جنگ کا خطرہ ختم ہوجانے کے بعد حکومت کو ان کی ضرورت نہیں اس لیے ان کی ایکس (سابقہ ٹویٹر) تک رسائی دوبارہ روک دی جائے گی۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم نوجوانوں کا کہنا تھا کہ انہیں اس کشیدگی میں بھارت پر پاکستان کے سبقت لے جانے کی بھی خوشی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ جنگ کبھی بھی اچھی نہیں ہوتی۔ یہ بات دونوں ملکوں کے بڑوں کو سمجھنی چاہیے کہ اس دنیا کو رہنے کے لیے ایک بہتر بنانے کے سلسلے میں جنگ سے گریز کرکے بہت سے اہم کاموں بشمول غربت کے خاتمے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کی طرف توجہ دی جانی چاہیے۔
نعمان جاوید نامی کامرس کے ایک طالب علم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم پہلے ہی غزہ اور یوکرین سمیت دنیا کے مختلف علاقوں میں ہونے والی جنگوں کے تلخ نتائج سے آگاہ ہیں لیکن حالیہ پاک بھارت جنگ میں پہلی مرتبہ جنگ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ رات کو بلیک آؤٹ ہونا، ایمرجینسی تیاریاں، گھر سے غیر ضروری طور پر باہر نکلنے پر پابندی، درست خبروں کا فقدان اور ایمرجنسی سائرن بجنے سمیت اب ہمارے پاس جنگ کے بارے میں بہت سی یادوں کا ذخیرہ آ گیا ہے۔‘‘
سامیہ نامی ایک طالبہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ ایک مختصر جنگ تھی، اس میں زیادہ ڈر تو نہیں لگا لیکن یہ سوچ کر بہت دکھ ہوتا رہا کہ یہ جنگ نہ صرف دونوں طرف انسانوں کی جان لے رہی ہے بلکہ جنگلی حیات، درخت ماحول اور وسائل سب اس کی زد میں آ رہے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ کے خاتمے کے باجود اس کے نتائج عام آدمی کو بھگتنا ہوں گے۔
ایک نجی سکول میں زیر تعلیم طالبہ طوبیٰ نے کہا کہ جنگ کی مسلسل خبروں سے وہ اور ان کی سہیلیاں ایک طرح سے وار ٹراما کا شکار ہو گئی تھیں۔ ’’جنگ بندی کے بعد اب ہم کافی ریلیکس محسوس کر رہی ہیں۔‘‘
مصطفیٰ احمد نامی ایک نوجوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ ایک کنونشنل وار نہیں تھی اس لیے اس سے بچنے کے آپشن غیر یقینی تھے۔ ان کے خیال میں ان کے دوستوں نے جنگ کے بارے میں مزاحیہ میمز بنا بنا کر اپنے آپ کو جنگ کے سٹریس سے نکانے کی کوشش کئی نوجوانوں کا کہنا تھا کہ یہ جنگ ان دنوں میں ہوئی، جب ان کے امتحانات اور انٹرنشپس چل رہی تھیں ان کے بقول جنگ کی وجہ سے ان کے سارے کام رک گئے تھے اور وہ ایک بے یقینی کی صورتحال کا شکار ہوگئے۔ بلال نامی ایک نوجوان نے کہا، ’’ جنگ کے دنوں میں افواہوں کے زور اور مصدقہ اطلاعات کی کم یابی سے انہیں بہت تکلیف ہوئی۔‘‘
اقصیٰ نامی ایک طالبہ نے بتایا کہ انٹرنیٹ پر کئی نوجوانوں نے اطلاعات کا اپنا نظام بنایا ہوا تھا کہیں ڈرون حملے کی اطلاع ملتی تو اس سے فوراﹰاس علاقے میں رہنے والے بچے اس کی تردید یا تصدیق کر دیتے۔ ان کے مطابق، ’’اس جنگ میں سیٹیزن جرنلزم کو بھی بہت فروغ حاصل ہوا۔‘‘
احمد عبداللہ نامی ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ جنگ کی ٹینشن کی وجہ سے وہ ٹھیک سے سو نہیں سکے اور جنگ بندی کا سن کر انہیں بہت خوشی ہوئی ہے۔ ’’میں اب اپنے دوستوں کے ساتھ جنگ بندی کی خوشی میں باہر کھانے پر جا رہا ہوں۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی پر کراچی کے شہری مطمئن
پاکستان اور بھارت کے مابین جاری کشیدگی کی وجہ سے آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے اور ملک کی اقتصادی شہہ رگ کہلانے والے شہر کراچی کے رہائشیوں میں بے چینی پائی جا رہی تھی، جو جنگ بندی کی خبر سنتے ہی خوشی اور اطمینان میں تبدیل ہو گئی۔ شہر کے عوامی اور کاروباری حلقوں نے جنگ کا خطرہ ٹل جانے پر مسرت کا اظہار کیا۔
پاکستان اسٹاک ايکسچنج کے ڈائريکٹر احمد چنائے کا کہنا ہے کہ یہ کاروباری حلقوں کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ ممکنہ جنگ کی خبروں اور بے یقینی کے اسٹاک مارکيٹ پر منفی اثرات ہوتے ہيں، مگر پاکستان اسٹاک مارکيٹ کی کارکردگی بہت ذيادہ متاثر نہيں ہوئی، اور اب دونوں ممالک کے درميان سيز فائر کے بعد کاروباری حلقے خوش ہيں کہ کسی بہت بڑے تصادم کے بغیر ہی فائر بندی کر دی گئی۔‘‘
کراچی کے علاقے صدر کی ایک کاروباری شخصیت وجاہت علی کا کہنا تھا، ’’ جنگ ہماری نسلوں کے لیے نقصان دے ہے، يہ کرکٹ ميچ نہيں، دو جوہری طاقتوں کا ٹکراؤ تھا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’پاکستان کو اب آئی ايم ايف سے قرض کی قسط بھی مل چکی ہے اور سيز فائر کے بھی کاروبار اور معيشت پر بہتر اور دور رس اثرات ہونگے۔‘‘
ایک ان دیکھے تناؤ کے باجود کراچی میں آج بروز ہفتہ صبح سے ہی معمول کی زندگی رواں دواں تھی تاہم جیسے ہی سیز فائر کی خبر آئی تو لوگوں کے چہرے کھل اٹھے۔ گلیوں اور بازاروں میں ایک دم گہما گہمی نظر آنے لگی اور لوگ چائے خانوں، ہوٹلوں اور ڈھابوں میں بیٹھ کر گزشتہ تین دنوں کے دوران ہونے والے واقعات پر گفتگو کرتے نظر آئے۔
ایک گھريلو خاتون کلثوم فاطمہ نے ڈوئچے ويلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’مجھےجنگ کے نام سے خوف آتا ہے ، گزشتہ رات طياروں کی آوازيں سن کر جب ٹی وی کھولا تو معلوم ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے درميان جنگ چھڑ گئی ہے، صبح جب بازار گئی تو سب نارمل تھا، اس سے میرے دل کو کچھ تسلی ہوئی۔‘‘
اس سےقبل سندھ کی صوبائی حکومت نے پاک بھارت کشيدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے صوبے ميں شہری دفاع کے محکمے اور فائر فائٹرز کو کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تيار رہنے کا حکم دے رکھا تھا۔
سندھ حکومت نے پاک بھارت کشيدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے صوبہ ميں شہری دفاع کے محکمہ اور فائر فائٹرز کو کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تيار رہنے کا حکم دے رکھا تھا، جو ابھی تک برقرار ہے۔
پاکستان کے ساتھ فائرنگ روکنے پر مفاہمت طے پا گئی ہے، بھارتی وزیر خارجہ
بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان فائرنگ اور عسکری کارروائیاں روکنے پر ایک ’’مفاہمت‘‘ طے پا گئی ہے تاہم اُن کا کہنا تھا کہ نئی دہلی حکومت دہشت گردی کے خلاف اپنے ’’دو ٹوک اور غیر لچکدار مؤقف‘‘ پر قائم رہے گی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر جاری پیغام میں جے شنکر نے کہا، ’’بھارت اور پاکستان نے آج فائرنگ اور فوجی کارروائیوں کو روکنے پر ایک مفاہمت طے کی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا، ’’بھارت نے ہمیشہ ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف دو ٹوک اور غیر مفاہمتی مؤقف اپنایا ہے، اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔‘‘
بھارت کا مؤقف ہے کہ 22 اپریل کو اس کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے خونريز حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے پیچھے ان گروپوں کا ہاتھ ہے، جنہيں پاکستان کی حمايت حاصل ہے۔ اسلام آباد نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ایک غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ: پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی کال، فائرنگ بند کرنے پر اتفاق
بھارت کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ ہفتے کی سہ پہر پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) اور ان کے بھارتی ہم منصب کے مابين رابطہ ہوا، جس دوران فریقین نے تمام محاذوں فضائی، سمندری اور زمينی لڑائی بند کرنے پر اتفاق کیا۔
بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق، ’’دونوں جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ تمام قسم کی فائرنگ فوری طور پر بند کی جائے گی۔‘‘
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی شدید ہو چکی تھی اور کئی روز سے جاری جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔
اسحاق ڈار کی پاکستان اور بھارت کے مابین سیز فائر کی تصدیق
پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں تصدیق کی ہے کہ پاکستان اور بھارت فوری سیز فائر پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ ڈار نے اپنی پوسٹ میں مزید کہا، "پاکستان نے اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر سمجھوتا کیے بغیر ہمیشہ خطے میں امن اور سلامتی کی کوشش کی ہے۔"