بھارت اور امریکہ میں تجارتی جنگ، نقصان کس کا؟
7 ستمبر 2025جون 2023 میں جب بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی امریکہ کے سرکاری دورے پر گئے، تو اس وقت کا جوش و خروش ظاہر کر رہا تھا کہ امریکہ دونوں ممالک کے قریبی تعلقات کو کتنا اہم سمجھتا ہے۔ اس وقت صدر جو بائیڈن نے کہا تھا
’’میں ہمیشہ سے یہ مانتا ہوں کہ امریکہ اور بھارت کے تعلقات 21ویں صدی کی سب سے اہم شراکت داریوں میں سے ہوں گے۔‘‘جب رواں سال کے شروع میں مودی دوبارہ وائٹ ہاؤس پہنچے اور منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملے، تو پہلے جیسا جشن نہیں تھا مگر ماحول کافی حد تک دوستانہ تھا۔ اس دوران کئی تجارتی معاہدوں پر بات چیت بھی ہوئی۔
لیکن صرف چھ ماہ بعد ہی صورتحال بالکل بدل گئی۔ 27 اگست سے امریکہ ایکسپورٹ کی جانے والی زیادہ تر بھارتی مصنوعات پر50 فیصد ڈیوٹی عائد کی جا چکی ہے۔ یہ سب کچھ تب شروع ہوا جب اپریل میں ٹرمپ نے کئی ملکوں پر بھاری ٹیکس لگانے کا اعلان کیا، اور بھارت کے ساتھ تجارتی مذاکرات ناکام ہو گئے۔ اس کے بعد مزید کشیدگی اس وقت بڑھی جب ٹرمپ نے روسی تیل خریدنے کی وجہ سے بھارت پر اضافی 25 فیصد ڈیوٹی لگا دی۔
واشنگٹن میں بہت سے لوگ اس بات پر تشویش میں ہیں کہ بھارت جیسے اہم اتحادی کے ساتھ تعلقات بگڑنے سے انڈو پیسفک خطے میں امریکی پالیسی کمزور ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف بھارت میں یہ خوف بڑھ رہا ہے کہ یہ ڈیوٹیاں تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ملکی امعیشت کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
بھارت کو کتنا نقصان ہو سکتا ہے؟
امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ 2024 میں بھارت نے امریکہ کو تقریباً 87 بلین ڈالر کی اشیاء برآمد کی تھیں۔ لیکن نئی دہلی کے ایک ادارے گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو کا اندازہ ہے کہ یہ اعداد و شمار 2026 تک 40 فیصد سے زیادہ گر کر صرف 50 ملین ڈالر رہ جائیں گے۔
بھارت کے سب سے بڑے برآمدی شعبے جیسا کہ کپڑے، زیورات اور جواہرات شدید دباؤ میں ہیں۔ اگران میں کمی آتی ہے تو لاکھوں ملازمتیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
رک روسو، جو واشنگٹن میں سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز (CSIS) میں انڈیا اور ایمرجنگ ایشیا اکنامک کے چیئر پر فائز ہیں، کے مطابق بھارت کی معیشت کا صرف 14 فیصد حصہ مینوفیکچرنگ پر مبنی ہے، اس لیے مجموعی معیشت کو محدود نقصان ہوگا۔ مگر مودی کی "میک اِن انڈیا" پالیسی براہِ راست متاثر ہو سکتی ہے، کیونکہ امریکہ بھارت کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ ہے۔
امریکہ کو کیا نقصان ہے؟
امریکہ نے بھارت کو تقریباً 42 ارب ڈالر کی اشیاء برآمد کی تھیں، جو بھارت کی برآمدات کے نصف سے بھی کم ہیں۔ اس لیے بظاہر بھارت کو زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔
روسو کے مطابق امریکہ بھی بالکل محفوظ نہیں۔ توقع ہے کہ بڑی تعداد میں بھارتی طلبہ اب امریکی یونیورسٹیوں کا رخ نہیں کریں گے جس سے تعلیم کے شعبے کو جھٹکا لگے گا۔ اسی طرح امریکی کمپنیاں جو چین سے نکل کر بھارت میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی تھیں، وہ بھی اب پیچھے ہٹ سکتی ہیں۔
مزید یہ کہ اگر بھارت امریکہ سے دور ہو کر چین کے قریب جاتا ہے تو یہ امریکہ کے لیے بڑا جغرافیائی سیاسی خطرہ ہوگا۔ ایک مضبوط چین اور بھارت کی ممکنہ شراکت داری خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو کمزور کر سکتی ہے۔
ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ صورتحال بھارت اور پاکستان کے مابین رواں سال مئی میں ہونے والی کشیدگی کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے کیونکہ بظاہر امریکی صدر کا جھکاؤ اسلام آباد حکومت کی جانب زیادہ ہے۔
مسئلے کا حل کیا ہے؟
ماہرین کے مطابق بھارت ابھی بھی معاہدے کے لیے بے چین ہے، تاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات مزید نہ بگڑیں۔ ٹرمپ کی حکومت کے مزاج کو دیکھتے ہوئے، یہ معاہدہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔
امریکی اور بھارتی ماہرین مانتے ہیں کہ دونوں کے تعلقات بہتر ہونا ہی خطے کے امن اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔ مگر اس وقت یہ کشیدگی نریندر مودی کے لیے اندرونِ ملک سیاسی دباؤ میں اضافے کا باعث بن رہی ہے، اور شاید یہی دباؤ انہیں مذاکرات کی میز پر واپس لائے۔
ادارت: رابعہ بگٹی