بچوں کے ساتھ مارپیٹ کا خاتمہ ہو جانا چاہیے، ڈبلیو ایچ او
28 اگست 2025عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپنی ایک نئی رپورٹ میں بتایا کہ کم ترقی یافتہ 49 ممالک میں کیے گئے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ جسمانی سزا کا سامنا کرنے والے بچوں کے، ایسی سزا سے محفوظ اپنے ہم عمر ساتھیوں کے مقابلے میں آگے بڑھنے کے امکانات 24 فیصد کم ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 18 سال سے کم عمر کے نصف سے زیادہ بچوں کو جسمانی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ان پر ذہنی، سماجی اور جذباتی اعتبار سے دوررس منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
یہ بچے عام طور پر والدین، اپنی دیکھ بھال کرنے والوں اور اساتذہ کی جانب سے مار پیٹ کا نشانہ بنتے ہیں۔ ایسی سزائیں زیادہ تر گھروں اور اسکولوں میں دی جاتی ہیں۔ یہ سزا بچوں کو نہ صرف فوری جسمانی نقصان پہنچاتی ہے بلکہ ان میں ہارمونل دباؤ کو بھی بڑھا دیتی ہے جس سے ان کے دماغ کی ساخت اور کارکردگی میں تبدیلی آ جاتی ہے اور یہ اثرات زندگی بھر قائم رہ سکتے ہیں۔
جسمانی سزا بچوں کے لیے متعدد خطرات کا باعث
ڈبلیو ایچ او میں شعبہ سماجی عوامل کی ڈائریکٹر ایٹینی کروگ نے بتایا ہے کہ جسمانی سزا سے بچوں کے رویے، ترقی یا بہبود پر کوئی مثبت اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے والدین یا معاشروں کو کسی طرح کا کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں بہت سے تحقیقی جائزوں سے ثابت ہوا ہے کہ جسمانی سزا کے بچوں کی صحت پر انفرادی اور معاشرے پر مجموعی طور پر دیرپا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسے سائنسی شواہد موجود ہیں کہ جسمانی سزا بچوں کی صحت کے لیے کئی طرح کے خطرات کا باعث بنتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشرتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو جسمانی سزا کا سامنا کرنے والے بچے بڑے ہو کر اپنے بچوں کے ساتھ یہی رویہ اپناتے ہیں جس سے تشدد کا نسل در نسل سلسلہ قائم ہو جاتا ہے۔ اس طرح، بچپن میں مارپیٹ سہنے والے بالغ افراد میں پرتشدد، مجرمانہ اور جارحانہ رویہ پیدا ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
مختلف علاقوں میں جسمانی سزا کی شرح مختلف
اگرچہ جسمانی سزا دنیا بھر میں رائج ہے تاہم علاقائی حوالے سے اس کے اطلاق میں فرق پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، یورپ اور وسطی ایشیا میں تقریباً 41 فیصد بچوں کو گھروں میں جسمانی سزا دی جاتی ہے جبکہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں یہ شرح 75 فیصد تک ہے۔
اسکولوں میں جسمانی سزاؤں کو دیکھا جائے تو یہ فرق اور بھی نمایاں ہے۔ مغربی بحرالکاہل کے صرف 25 فیصد بچے تعلیمی دور میں جسمانی سزا کا سامنا کرتے ہیں جبکہ افریقہ اور وسطی امریکہ میں یہ شرح 70 فیصد سے زیادہ ہے۔
لڑکیوں اور لڑکوں کو جسمانی سزا دیے جانے کے امکانات تقریباً ایک جیسے ہوتے ہیں تاہم اس کے اسباب مختلف ہو سکتے ہیں۔ جسمانی معذور بچوں کا ایسی سزاؤں کا نشانہ بننے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، غربت، معاشی مسائل یا نسلی امتیاز کا شکار لوگوں کے بچوں کو جسمانی سزا دیے جانے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ جسمانی سزا سے بچوں کی اصلاح ہوتی ہے۔
جسمانی سزا پر پابندی عائد کرنے پر زور
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جسمانی سزا پر پابندی عائد کرنا ضروری ہے لیکن یہی کافی نہیں۔ جائزوں سے ثابت ہوتا ہے کہ قانونی پابندیوں سے جسمانی سزا کی شرح میں کوئی کمی نہیں آتی۔
اس وقت 67 ممالک نے گھروں اور اسکولوں میں بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے اس ممانعت کے بہتر طور سے اطلاق کے علاوہ آگاہی مہمات کے ذریعے اس سزا کے نقصانات کو اجاگر کرنے پر بھی زور دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جسمانی سزا کی ضرورت پر عام یقین کے باوجود اس کی ممانعت سے متعلق قوانین بنانے اور ان پر عملدرآمد کی کوششوں کے ساتھ آگاہی مہمات بھی چلائی جانا چاہئیں۔
ایٹینی کروگ نے کہا ہے کہ اگر والدین کو جسمانی سزاؤں کے مثبت متبادل کا علم ہو تو وہ انہیں ضرور اپنائیں گے۔ اب اس نقصان دہ عمل کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچے ترقی پائیں اور اپنی پوری صلاحیتوں سے کام لینے کے قابل ہوں۔
ادارت: عدنان اسحاق