بُلغاریہ: متوسط طبقہ کی حکومت مخالف ریلیاں
1 اگست 2013بُلغاریہ بحیرہ اسود کے کنارے آباد ملک ہے۔ اس کی آبادی تقریباً 73 لاکھ ہے۔ یہ ملک یونان اور رُومانیہ کے درمیان سینڈوِچ کی طرح ہے۔ ترکی بھی اس کا ایک ہمسایہ ملک ہے۔ کمیونسٹ حکومت کے زوال کے بعد بظاہر یہ دیوالیہ پن کی حد سے دور ہو گیا ہے لیکن تاحال اس کی بحال شدہ معیشت استحکام کی طلب گار ہے۔ یہ یورپی یونین اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن ملک ہے۔ بُلغاریہ نے یورپی یونین میں چھ سال قبل شمولیت اختیار کی تھی۔
بُلغاریہ کو 28 رکنی یورپی یونین کا غریب ترین ملک تصور کیا جاتا ہے اور کرپشن کی شرح بھی بہت زیادہ اور پریشان کُن ہے۔ بُلغاریہ میں اوسط ماہانہ تنخواہ 400 ڈالر کے قریب بنتی ہے۔ ان دنوں اس ملک میں ناراض عوام کی بے چینی کا حکومتی ایوانوں کو سامنا ہے۔ حکومت کو نااہل خیال کرنے والے مظاہرین زیادہ تر نوجوان نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ نوجوان نسل تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف ملکوں کی سیر و سیاحت کے باعث دوسرے ملکوں کے سماجی اور حکومتی نظاموں کی سمجھ بوجھ بھی رکھتی ہے۔ یہ لوگ سیاست پر قابض افراد کو بُدھُو، کُند ذہن اور نالائق سمجھتی ہے جو عوام کے بنیادی مطالبات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
بُلغاریہ میں قریب سات ہفتوں سے مظاہرین کا احتجاجی مارچ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔ ہر شام حکومتی پالیسیوں کے مخالف مظاہرین دارالحکومت کی مرکزی شاہراہ یلَو برِک روڈ (Yellow Brick Road) پر اکھٹے ہوتے ہیں اور پھر پرامن مارچ کا آغاز کیا جاتا ہے۔ صوفہ شہر کے یلَو برِک روڈ پر کمیونسٹ دور میں سرکاری دفاتر قائم تھے۔ آرتھوڈاکس چرچ کے علاوہ یہ سڑک پارلیمنٹ تک جاتی ہے۔ مظاہرین کے راستے میں شہر کے کئی اہم ریستوران اور کیفے بھی آتے ہیں۔ یہ احتجاجی مظاہرے پوری طرح پرامن اور پرسکون رہتے ہیں اور پولیس کو کسی قسم کی کارروائی نہیں کرنی پڑتی۔
وزارت عظمیٰ کے منصب پر کئی مقبول لیڈر براجمان ہو چکے ہیں لیکن سبھی پریشان حال عوام کے حالات میں بہتری پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان میں سن 1946 میں رومانیہ کے بادشاہ سیمیئون ساکشے کوبرگ (Simeon Saxe-Coburg) بھی شامل ہیں۔ کوبرگ کے سابق باڈی گارڈ بوئیکو بوریسلاو بھی عوامی تائید سے وزیر اعظم بنے اور چند اصلاحات متعارف بھی کروائیں لیکن منظم جرائم کرنے والے گروہوں کو نکیل ڈالنے سے قاصر رہے۔ بُلغاریہ کے بارے میں یہ عام تاثر ہے کہ منظم جرائم پیشہ گروہ ملکی معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں۔